تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تبصرہ کتب

نام کتاب: ’’مختصر سیرت نبوی (سیرۃ الحبیب الشفیع من الکتاب العزیز الرفیع)‘‘ مؤلف: حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی قدس سرہ تسہیل و تدوینِ نو: ڈاکٹر ضیاء الحق قمرؔ ضخامت:۱۲۸صفحات ناشر:جامعہ فتحیہ، اچھرہ لاہور
اردو زبان کی خوش قسمتی رہی ہے کہ عربی کہ بعد دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی کتابیں بالخصوص سیرتِ نبوی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کی تالیفات اسی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی نوعیت کی ایک قابلِ قدر کتاب ہے، جو کئی اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل ہونے کے با وصف ایک عرصہ سے گوشۂ گمنامی میں تھی مگر اب جسے فاضل محقّق جناب ڈاکٹر ضیاء الحق قمر (عافی اﷲ إیّاہ وإخوتہ ) کی محنت کی بدولت نئے سرے سے منصہ شہود پر آنے کا موقع ملا ہے۔
کتاب کے مؤلف امام اہلِ سنّت کے لقب سے بجا طور پر معروف ہیں، آپ کی ساری زندگی حضور ختمی مرتبت سیدنا ومولانا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ عالی اور آپ کے اصحابِ گرامی کے مکارم و فضائل کے بیان اور دفاع میں گزری۔ زیرِ نظر کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ سیرت نبویہ کے سب سے پہلے مصدر قرآن مجید کو بطورِ خاص ذریعۂ معلومات بنا کر تالیف کی گئی ہے۔ خود مؤلّفِ مرحوم فرماتے ہیں: ’’یہ مختصر سیرت جو محض نمونے کے طور پر کتاب عزیز رفیع یعنی قرآن کریم سے اقتباس کر کے لکھی گئی ہے……‘‘۔ سچ بات یہ ہے کہ قرآن کریم کو مصادرِ سیرت میں بنیادی اور حیثیت حاصل ہونے کے با وجود عام طور پر سیرت نگاروں کے ہاں وہ اہمیت نہیں دی جاتی جتنی ثانوی نوعیت کے مراجع کو ملتی ہے، اس حوالے سے حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی کی یہ سعیٔ مقبول اہمیت کی حامل ہے۔
اسی طرح کتاب کی تالیف کے زمانے میں(کتاب ۱۳۱۳ھ/۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی) مستشرقین اور ان کے متاثرین کی جانب سے اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو کر ہندستان تک پہنچ چکا تھا چنانچہ دورانِ تالیف یہ پہلو بھی حضرت مولانا کے ملحوظِ نظر رہا اور انھوں نے اس اہم موضوع کے تقاضوں کو بھی نباہا ۔
کتاب ایک مقدمے چار ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ فاضل محقق کی جانب سے کتاب کے شروع میں صاحبِ تالیف کے سوانحی حالات اور آخر میں مفصل اشاریے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ البتہ تالیف و تحقیق میں جن مصادر و مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے اگر ان کی ایک مختصر فہرست کا اضافہ کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ اسی طرح جدید عربی مطبوعات کے اسلوب کے مطابق مشمولات کی فہرست کو بھی کتاب کے آخر میں درج کیا گیا ہے، جبکہ اردو میں رائج چلن یہ ہے کہ محتویاتِ کتاب کی فہرست شروعِ کتاب میں ہی مندرج ہوتی ہے اور اردو کا قاری اسی سے مانوس ہے۔
فاضل محقق نے تحقیق کے جدید ترین معیارات کی پیروی کے ساتھ ساتھ کتاب کی عبارت تبدیل کیے بغیر زبان کو بھی آسان کرنے کی کوشش کی ہے جو تقریباً ایک سو سال پہلے کے بہت سے الفاظ و تراکیب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے آج کے قاری کے لیے کہیں کہیں مشکل ہو سکتی تھی۔ اس سلسلے میں حاشیہ پر کہیں الفاظ کا مطلب اور کہیں عبارات و تراکیب کو آسان تر اردو میں نئے سرے سے لکھ کرکم سواد قاری کے لیے بھی کتاب کو قابلِ فہم بنا دیا گیا ہے۔
سنجیدہ خوبصورت سر ورق، مضبوط کارڈ کی جلد، عمدہ درآمدی سفید کاغذ، سرخ و سیاہ دو رنگی طباعت اور حواشی پر تذہیب کی وجہ سے کتاب معنوی محاسن کے ساتھ ساتھ صوری لطافتوں سے بھی آراستہ و پیراستہ ہے۔ اور ان خصوصیتوں (ان میں سے بھی علی المخصوص اختصار و وثوق ) کی وجہ سے کتاب بہت قیمتی اور ہر مسلمان کے کتب خانہ کی زینت بننے کے لائق ہے۔
نام کتاب: اصحابِ بدر کا اجمالی تعارف (النور المبین فی جمع اسماء البدریین) تالیف:شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی سندھی
ترجمہ: مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی ضخامت: ۱۳۶ص ناشر: قاضی احسان اکیڈمی، شجاع آباد 0300-4385230
غزوۂ بدر الکبریٰ تاریخ اسلام کے روشن ترین ایام میں سے ایک دن ہے کہ جس دن دنیا والوں کے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ طے ہو گیا کہ فتح و شکست کا فیصلہ اب اسباب و آلات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر طے ہوگا۔ اس مبارک روز کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں یوم الفرقان قرار دیا ہے۔ اور اس مقدّس معرکے میں شرکت کرنے والے خوش بخت مجاہدین کو تاریخِ اسلام کے سب سے معظّم اور رفیع الشان ہستیاں قرار دیا۔
زیر ِ تبصرہ کتاب شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی سندھی قدّس سرّہٗ کی تالیف منیف ہے جس میں حضرت نے اصحاب بدر کے اسمائے مبارکہ کو الفبائی ترتیب کے مطابق جمع کیا تھا۔ حضرت شیخ الاسلام بارھویں صدی ہجری میں اسلامی علمی روایت کے چند انتہائی قد آور اکابر میں سے ایک ہیں اور ان کی فقہی و حدیثی تالیفات و رسائل کے معمولی مطالعے سے ہی ان کے علمی رسوخ اور ثقاہت کا بلند پایہ معلوم ہو جا تا ہے۔
یہ کتاب اس سے پہلے عربی زبان میں مولانا سلیم اﷲ سندھی مد ظلہ کی تحقیق و تحشیہ سے شائع ہو چکی ہے اور اب اس کا ترجمہ نشر کیا گیا ہے۔حضرت مخدوم قدس سرہ نے اس کتاب میں اصحاب بدر علیہم الرضوان کے صرف اسمائے مبارکہ کو اکٹھا کیا، اس سلسلے میں صحیح بخاری میں وارد شدہ اسمائے اصحاب بدر کو اصل اور اساس بنا کر دوسری کتبِ سیرت و حدیث سے مزید اسماء کا اضافہ کیا، اسی طرح اسماء کے ضبط کے لیے ضبط بالحروف کے محتاط طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے ، ان ناموں کے تلفظ کی درست ادائیگی کو محفوظ فرمایا۔ جس کے بعد مولانا سلیم اﷲ سندھی مدّ ظلہ نے اس پر حاشیے میں عربی زبان میں سب اصحابِ گرامی رضی اﷲ عنہم کے مختصر حالاتِ زندگی کا اضافہ کیا۔ ہمارے محترم مہربان جناب مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی نے اس کتاب کی اہمیت اور وقعت کے پیشِ نظر اس کو ترجمہ کے لیے منتخب کیا اور عالمی مجلس تحفّظ ختم نبوّت کے ترجمان ماہنامہ ’’لولاک‘‘ میں سلسلہ وار شائع کرنا شروع کیا۔ ترجمہ مکمل ہونے کے بعد اب اسے کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے۔
کتاب کے شروع میں معروف محقّق اور فاضل عالمِ دین بلکہ محققین اور فضلاء کے استاذِ زمانہ جناب مولانا محمد ادریس سومرو زید مجدہ کا مقدّمہ بھی شامل ہے۔ جو اصل میں عربی ایڈیشن کے لیے لکھا گیا مقدمہ ہے اور اردو ترجمے کی اشاعت کے لیے اس میں ہی اضافات کیے گئے ہیں۔
نام کتاب: مولانا مفتی محمود کی خدمت میں منظوم خراجِ تحسین مرتّب:ماسٹر امجد اقبال ساجد ضخامت: ۱۲۸صفحات ناشر: قاضی احسان اکیڈمی، شجاع آباد۔ 0300-4385230
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود علیہ الرحمۃ جمعیت علمائے اسلام کی عظیم الشان قیادت کی فہرست میں بھی سب سے نمایاں شخصیت تھے۔ لگ بھگ پون صدی پر مشتمل ان کے فعال سیاسی کردار کے نتیجے میں وہ ملّت اسلامیہ پاکستان کے محترم قائد کے طور پرمسلّم مقام پر فائز ہوئے۔
ان کے حینِ حیات بھی شعراء و ادباء نے ان کے مقاماتِ عالیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نظم و نثر میں ان کے محاسن کو سپردِ قلم کیا، اور جب ان کا انتقال ہوا تو بہت سی شعری و نثری تخلیقات منظرِ عام پر آئیں جو حضرت مولانا مفتی محمودکی شخصی خوبیوں، آپ کے مجاہدانہ کردار اور آپ کے نا گہانی انتقال پر رثاء و تعزیت کے موضوعات پر مشتمل تھیں۔
زیرِ نظر کتاب ماسٹر امجد اقبال کی ترتیب سے انھی شعری تخلیقات پر مشتمل ہے۔ محترم مرتّب اس سے پہلے اسی طرز کی ایک اور کتاب بھی ترتیب دے چکے ہیں جس میں حضرت امیرِ شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری قدّس سرہ کی شخصیت کے حوالے سے لکھی جانے والی منظوم تخلیقات کو یکجا کیا گیا تھا۔
کتاب کے شروع میں، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد القیوم حقانی اور مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی مدّ ظلّہم کی تقاریظ اور تأثراتی مضامین شامل ہیں۔ منظوم تخلیقات دو ابواب میں منقسم ہیں؛ پہلا باب ان منظومات کا مجموعہ ہے جو حضرت مفتی صاحب نور اﷲ مرقدہ کے زمانۂ حیات میں شائع ہوئیں، جبکہ دوسرے باب میں آپ کے انتقال کے بعد کی شعری تخلیقات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں احسان دانش، مرزا غلام نبی جانباز، سید امین گیلانی، اختر کاشمیری، اکرام القادری، گوہر ملسیانی، مولانا عبد الحلیم کلاچوی اور نسیم لیّہ کے اشعار کے ساتھ ساتھ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی، مولانا عبد المنّان، عبد الحئی رحمانی اور کفایت اﷲ کے عربی اور فارسی مراثی و قصائد بھی شامل ہیں۔
ان قابلِ قدر تخلیقات کے یکجا ہو جانے سے کتاب ایک تاریخی ذخیرہ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے محبّان اور جمعیت علمائے اسلام کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے یہ کتاب ایک اہم مصدر و مرجع بن سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.