تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

خاندانِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم

ابو مروان معاویہ واجد علی ہاشمی
تاریخ سِیَر اور انساب کے مطالعہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان، ازواج و اولاد، نواسے، نواسیاں، آپ کے خُسرو داماد اور آپ کے ہم زلف کون تھے، پتہ چلتا ہے۔ خاندان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا جائزہ لینے کے لیے میں اسے مختلف مراجع اور مصادر سے اخذ کیا ہے۔ مثال کے طور پر نسب قریش (مصعب زبیری، ۱۵۶ھ)، جمہرۃ النساب (حزم اندلسی، ۳۸۴ھ)، کتاب المعارف (قتیبہ الدینوری، ۲۱۳ھ)، کتاب المحبر (ابن حبیب بغدادی متوفی ۲۴۵ھ)، طبقات الکبری (محمد بن سعد المتوفی ۲۳ھ)، و غیرھم۔ ان کے علاوہ باقی مراجع میں اہم مراجع یہ ہیں۔
انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب (ابن عبدالبر)، الاصابہ (ابن حجر عسقلانی)، سیر اعلام النبلاء (علامہ ذہبی)، تذکرۃ المعصومین، اصول کافی، نہج البلاغہ، ناسخ التواریخ، خصائل صدوق، جلاء العیون از باقر مجلسی، منتہی الآمال، عباسی قُمی، حیات القلوب از مجلسی، مفاتح الجنان از عباس قمی، تحفۃ العوام، تہذیب الاحکام، الاستبصار، زاد المعاد، مجالس المؤمنین از شوستری، مروج الذہب از مسعودی، مرأۃ العقول، ذبح عظیم، ………………انوار النعمانیہ، تنقیح المقال از عبد اﷲ الماقانی، بحار الانوار، تلخیص الشافی از ابو جعفر طوسی، منتخب التواریخ، مناقب آل ابی طالب از ابن شہر آشوب، قرب الاسناد، تنبیہ والاشراف از مسعودی، یعقوبی، البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، تاریخ طبری، الکامل از ابن اثیر وغیرھم۔
نسب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم:
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بن عبداﷲ بن عبدالمطلب (شیبہ) بن ہاشم (عمرو) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قُصی(زید) بن کِلاب بن مُرَّہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر بن مالک بن نَضر (قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ (طبقات الکبریٰ، ج: ۱، ص: ۶۴، مترجم)، (کتاب المعارف، ص: ۵۲)
عبد مناف بن قصی کی اولاد:
عبد مناف بن قصی کی اولاد میں چھے بیٹے اور چھے بیٹیاں تھیں۔ بیٹے: (۱) مطلب، (۲) ہاشم، (۳) عبد شمس، (۴)نوفل، (۵) ابو عمرو، (۶) ابو عبیدہ۔ بیٹیاں: (۱) تماضر، (۲) حَنَّہ، (۳) قلابہ، (۴) برّہ، (۵) ہالہ ،(۶) زیطہ۔
ان چھے بیٹوں میں دو زیادہ عزت و شرف کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئے۔ (۱) ہاشم، (۲) عبد شمس۔
ہاشم نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پردادا ہیں، اصل نام عمرو اور کنیت ابو الاسد تھی۔ ہاشم بن عبد مناف کے چار بیٹے: (۱) عبدالمطلب (عامر؍ شیبہ)، (۲) ابی صیفی (عمرو)، (۳) اسد، (۴) نفلہ تھے اور پانچ بیٹیاں: (۱) شقاء، (۲) رقیہ، (۳) ضعیفہ، (۴) خالدہ، (۵) حَنّہ تھیں۔ ہاشم کی نسل صرف عبدالمطلب سے چلی۔
(فتح الملہم، ج: ۳، ص: ۹۹۔ ابن سعد، ج: ۱، ص: ۹۴)
عبد شمس بن عبد مناف:
عبد شمس بن عبد مناف کی اولاد میں سات بیٹے: (۱) حبیب، (۲) اُمیہ الاکبر، (۳) اُمیہ الاصغر، (۴) عبد اُمیہ، (۵) نوفل، (۶) عبدالعزیٰ، (۷) عبداﷲ الاعرج (ربیعہ) تھے۔ ہاشم کی اولاد میں، اولاد عبدالمطلب والد رسول محترم صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا حمزہ رضی اﷲ عنہ، سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ، زبیر، ابو طالب، ابو لہب، حارث شامل ہیں۔ اور اولاد عبد شمس میں، اولادِ بنو اُمیہ سیدنا ابو سفیان رضی اﷲ عنہ، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ، دامادِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ابو العاص رضی اﷲ عنہ بن ربیع، سیدنا عثمانِ غنی رضی اﷲ عنہ، سیدنا مروان بن حکم رضی اﷲ عنہما، سیدنا عبداﷲ بن عامر بن کریز، سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اﷲ عنہ، عبداﷲ بن عثمان غنی رضی اﷲ عنہ( نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم)، علی بن ابو العاص رضی اﷲ عنہ، (نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، شہیدِ یرموک، ردیفِ رسول فتح مکہ،الاصابہ، ابن حجر عسقلانی، ج: ۲، ص: ۵۱۰، تحت علی ابن ابو العاص) شامل ہیں۔ بنو ہاشم اور بنو اُمیہ قریش ہی کے دو اہم اور معزز برادر قبیلے تھے۔ جن کی اسلام سے پہلے اور بعد میں آپس میں کئی رشتہ داریاں تھیں۔
اولادِ عبدالمطلب:
عبدالمطلب نے ۵۷۸ یا ۵۷۹ء میں وفات پائی۔ دس بیٹے: (۱) حارث، (۲) زبیر، (۳) ابو طالب عبد مناف، (۴) عبداﷲ، (۵) ابو لہب، (۶) حجل (مغیرہ)، (۷) حمزہ (رضی اﷲ عنہ)، (۸) ضرار، (۹) عباس (رضی اﷲ عنہ)، (۱۰)غیداق۔ اور بعض نے بارہ بیٹھے لکھے ہیں۔ چھے بیٹیاں: (۱) بَرّہ زوجہ عبدالاسد بن ہلال بن عبداﷲ بن عمرو بن مخزوم، (۲) اُم حکیم البیضاء زوجہ کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ دامادِ رسول، ناشر قرآن، خالوئے حسنین کریمین، ہم زلف حیدرِ کرار، امام مظلومِ مدینہ، قتیل سازش ابن سباء عثمان بن عفان کی نانی اماں تھی۔ (۳)اُمیمہ زوجہ جحش بن رئاب بن یعمراز بنی اسد بن خزیمہ تھیں، (۴) عاتکہ بنت عبدالمطلب، یہ ابی اُمیہ بن مغیرہ بن عبداﷲ بن عمرو بن مخزوم کی زوجہ تھیں، (۵) ارویٰ کی شادی عمیر بن وہب بن عبد بن قصی سے ہوئی، جس سے طُلَیب پیدا ہوئے، اوّلین مہاجرین میں سے تھے اور اجنادین میں شہید ہوئے، (۶) صفیہ بنت عبدالمطلب کی شادی عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ سے ہوئی، جس سے حواری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا زبیر رضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق عبدالمطلب کی تین بیٹیوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ اولاد عبدالمطلب کی تفصیل کے لیے دیکھیے:
(طبقات ابن سعد، ج:۱۔ نسب قریش: ص: ۱۷۔ المعارف ابن قتیبہ، ص: ۵۲)
عبدالمطلب کی نسل پانچ بیٹوں (۱) ۳عبداﷲ، (۲) حارث، (۳) زبیر، (۴) ابو طالب، (۵) سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ سے آگے چلی۔ بیاسی سال کی عمر میں عبدالمطلب نے وفات پائی۔
حارث بن عبدالمطلب:
اپنے والد کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے، مگر ان کے چار فرزند (۱) حضرت نوفل رضی اﷲ عنہ، (۲) حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ، (۳) حضرت ربیعہ رضی اﷲ عنہ، (۴) حضرت ابو سفیان مغیرہ رضی اﷲ عنہ، اسلام اور شرفِ صحابیت سے مشرف ہوئے۔
زبیر بن عبدالمطلب :
عبدالمطلب کے سب سے بڑے بیٹے حارث تھے جوکہ والد کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ حارث کے بعد زبیر سب سے بڑے تھے، یہ اپنے والد کے وصی تھے اور عبدالمطلب کی وفات کے بعد بنو ہاشم کے سردار مقرر ہوئے۔ ان کے ایک فرزند عبداﷲ صحابی اور دو بیٹیاں ضباعہ اور اُم حکیم بھی صحابیات میں شامل ہیں۔ عام طور پر ارباب سِیَر و تاریخ کے نزدیک وفات عبدالمطلب کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی کفالت ابو طالب نے کی تھی لیکن یہ بات خلافِ حقیقت ہے، کیونکہ زبیر جو کہ بنی ہاشم کے عبدالمطلب کے بعد سربراہ اور سردار تھے کی موجودگی میں ابو طالب نے کیسے کفالت نبی( صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ہو گی اور اگر زبیر کی وفات کے بعد ابو طالب کی کفالت قیاس کی جائے تو بھی خلافِ عقل ہے کہ زبیر بن عبدالمطلب کی وفات کے وقت نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۲۴ برس تھی۔ اتنی عمر میں کسی کی کفالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ زبیر بن عبدالمطلب کے بیٹوں کی نسل نہیں چلی، یہ بات خلافِ تحقیق ہے، ان کی نسل عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے آگے چلی ہے۔ مشہور بزرگ مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری بہادری کا سلسلہ نسب انہی عبداﷲ بن زبیر بن عبدالمطلب سے ملتا ہے۔
سید الشہداء حمزہ رضی اﷲ عنہ:
یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ہونے کے علاوہ رضاعی بھائی اور آپ کے ہم زلف بھی تھے۔ اسد اﷲ و اسد الرسول اور سید الشہداء کا خطاب آپ کو حاصل ہوا تھا۔ ابتدائی دور میں قبول اسلام کیا، غزوۂ بدر و غزوۂ اُحد میں دشمنوں کے بڑے بڑے سورماؤں کو خاک و خون میں ملا کر غزوۂ احد میں خود جامِ شہادت نوش کیا۔ اولاد میں دو فرزند (۱) عمارہ، (۲) یعلی اور دو بیٹیاں (۱) امُ الفضل، (۲) اُمامہ۔
عمارہ بن حمزہ رضی اﷲ عنہ کا ایک لڑکا جس کا نام حمزہ تھا اور یعلیٰ بن حمزہ رضی اﷲ عنہ کے پانچ بیٹے پیدا ہوئے، مگر ان کی نسل آگے نہ چلی۔
سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ بن عبدالمطلب:
یہ عمر میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد حنین، طائف اور تبوک کے غزوات میں شریک ہوئے، یہ نہایت فیاض، صلہ رحمی کرنے والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ ۳۲ھ میں وفات پائی، سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ اولاد میں دس بیٹے (۱) فضل ، متوفی: ۱۸ھ، شام، (۲)عبداﷲ، متوفی: ۶۷ھ، (۳) عبیداﷲ کا انتقال مدینہ میں ہوا۔ خلفاءِ عباسیہ محمد بن علی بن عبداﷲ بن عباس سے ہیں۔ (۴)معید، افریقہ میں خلافت عثمانؓ میں جہاد میں شہید ہوئے۔ (۵) قثم،ثمرقند میں شہید ہوئے۔ سعید بن عثمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ خلافت معاویہ رضی اﷲ عنہ میں ثمر قند گئے تھے۔ (۶) عبدالرحمن کی اولاد میں ان کا بیٹا عبدالرحمن تھا۔ یہ اپنے بھائی معید کے ساتھ افریقہ میں شہید ہوئے۔ (۷) عون، (۸) تمام، یہ سب سے چھوٹے بیٹے تھے، ان کی اوالاد میں (۱) جعفر، (۲) عباس، (۳) قُثم تھے، ان کی اولاد باقی ہے۔ (۹) کثیر، یہ فقیہ اور فاضل شخص تھے، ان کی اولاد سے نسل جاری نہیں ہوئی۔ (۱۰) حارث کی نسل موجود ہے۔ تین بیٹیاں تھیں: (۱)اُم حبیب (۲)صفیہ (۳) آمنہ۔
اُمّ کلثوم بنت فضل پہلا نکاح سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہ سے ہوا، اس کے بعد ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے ہوا۔ (کتاب المعارف، ص: ۵۳۔ نسب قریش، ص: ۲۵، ۳۸۔ جمہرۃ الانساب، ص: ۱۸)
اولادِ ابو طالب:
ابو طالب کی اولاد میں چار بیٹے (۱) طالب (۲) عقیل رضی اﷲ عنہ (۳) جعفر رضی اﷲ عنہ (۴) علی رضی اﷲ عنہ اور دو بیٹیاں (۱) اُمّ ہانی رضی اﷲ عنہا (ہند، فاطمہ) (۲) جمانہ۔ تین بیٹوں سے ابوطالب کی نسل جاری ہوئی۔ عقیل رضی اﷲ عنہ، جعفر رضی اﷲ عنہ اور علی رضی اﷲ عنہ سے۔
اولادِ عقیل رضی اﷲ عنہ:
یہ طالب سے چھوٹے تھے، ان کی کنیت ابو یزید تھی۔ یہ غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے، حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے ان کا فدیہ دیا، فتح مکہ کے وقت ایمان لائے۔ تاریخ البخاری الاصغر میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ عقیل رضی اﷲ عنہ کی وفات یزید کی حکومت کے زمانہ میں بعمر ۹۶ برس ہوئی۔ اولاد میں ۱۳ بیٹے (۱) مسلم، (۲) عبداﷲ، (۳) محمد، (۴) عبیداﷲ، (۵) عبدالرحمن، (۶) حمزہ، (۷) علی، (۸) جعفر، (۹) عثمان، (۱۰) یزید، (۱۱) سعد، (۱۲) جعفر اکبر، (۱۳) ابو سعید۔ اور چار بیٹیاں تھیں: (۱) رملہ، (۲) زینب، (۳) اسماء ، (۴) اُم ہانی۔
(کتاب المعارف،ص: ۸۸۔۸۷۔ نسب قریش، ص: ۸۴۔ تنبیہ والاشراف، ص: ۱۶۲)
عقیل رضی اﷲ عنہ کی نسل محمد سے اور محمد کی عبداﷲ سے جاری ہے۔ طبرستان میں ان کی نسل بنو المرفوع سے مشہور ہے۔
اولادِ جعفر رضی اﷲ عنہ:
یہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بھائی تھے۔ دو ہجرتیں کیں، حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ کی طرف، یہ فتح خیبر کے موقع پر واپس آئے تھے۔ موتہ ۸ھ میں شہید ہوئے۔ اولاد میں (۱) عبداﷲ، (۲) عون، (۳) محمد اکبر، ان کی ماں اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہ تھیں۔ (۴) محمد اصغر، (۵) حمید، (۶) حسین، (۷) عبداﷲ اصغر۔ سات بیٹے تھے، (نبی کا گھرانہ، ص: ۱۲۳) لیکن نسل صرف عبداﷲ اکبر سے چلی۔ عون تستر میں اور محمد اکبر صفین میں شہید ہوئے۔
(انساب الاشراف،تنبیہ والاشراف، مسعودی ۱۶۲)
اولادِ عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہ:
عبداﷲ بن جعفر، سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے داماد تھے۔ سیدہ زینب بنت علیؓ آپ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ ان سے (۱) جعفر اکبر، (۲) علی، (۳) عون اکبر، (۴) عباس، (۵) اُم کلثوم، یہ لا ولد تھی۔ اس اُمّ کلثوم کی شادی ابان بن عثمانؓ بن عفان سے ہوئی۔ (کتاب المعارف ابن قتیبہ، ص: ۹۰)
عبداﷲ بن جعفر کے اٹھارہ بیٹے اور تین بٹیاں تھیں ، دیگر اولاد میں (۵) محمد، (۶) عبید اﷲ، (۷) ابوبکر، (۸)صالح، (۹) موسیٰ، (۱۰) ہارون، (۱۱) یحییٰ، (۱۲) معاویہ، (۱۳) اسحاق، (۱۴) اسماعیل، (۱۵) قاسم، (۱۶) حسن، (۱۷) عون الاصغر، (۱۸) عدی۔ بیٹیاں: (۲) اُمّ محمد، (۳) اُمِ ابیہا۔ ان کی ماں لیلیٰ بنت مسعود بن خالد نہشلی تھیں۔ اُمّ محمد بنت عبداﷲ جعفر کا نکاح یزید بن معاویہؓ سے ہوا۔ (نسب قریش، ص: ۸۳) اور اُمّ ابیہا عبدالملک بن مروانؓ کی بیوی تھی۔
(نسب قریش، ص: ۱۱۳)
عبداﷲ بن جعفر کے ایک بیٹے علی جو سیدہ زینب بنت علیؓ کے بطن سے تھا، اس کے بیٹے محمد کی بیٹی (یعنی عبداﷲ بن جعفر کی پوتی ربیحہ بنت محمد بن علی کی دو مرتبہ شادی بنو مروانؓ میں ہوئی، پہلی مرتبہ یزید بن ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروانؓ سے، اس کے بعد بکار بن عبدالملک بن مروان سے۔ (کتاب المحبر، ص: ۴۴۰) عبداﷲ بن جعفر ۸۰ ھ میں عبدالملک بن مروانؓ کی خلافت کے زمانے میں ۹۰ برس کی عمر میں فوت ہوئے والی مدینہ ابان بن عثمانؓ بن عفان نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (نسب قریش، ص: ۸۲)
اولادِ علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ:
امام المشارق والمغارب اسد اﷲ الغالب سیدنا علی بن ابی طالب بعثت نبوی سے ۵ سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ ۷ برس کی عمر میں ایمان لائے۔ (البدایہ والنہایہ، ج: ۷، ص: ۲۲۳) چالیس ھ میں اٹھاون برس کی عمر میں شہید ہوئے۔
۹ ازواج اور مختلف لونڈیوں سے آپ کے ۱۸ بیٹے اور ۱۸ بیٹیاں تھیں۔ ۱۸ بیٹوں میں سے ۷ والد کے سامنے فوت ہو گئے، باقی گیارہ میں سے ۶ کربلا میں شہید ہوئے، اس وقت ۵ بیٹوں (۱) حسن رضی اﷲ عنہ، (۲) حسین رضی اﷲ عنہ، (۳) محمد ابن حنفیہ، (۴) عباس، (۵) عمر اطرف رضی اﷲ عنہا کی نسل موجود ہے۔ آپ کی ازواج و اولاد کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ازواج میں: (۱) سیدہ فاطمہ بنت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے (۱) حسن رضی اﷲ عنہا، (۲) حسین رضی اﷲ عنہا، (۳) محسن بچپن میں فوت ہوئے۔ بیٹیوں میں (۱) زینب الکبریٰ زوجہ عبداﷲ بن جعفرؓ۔ (۲) اُمّ کلثومؓ زوجہ عمرؓ بن خطاب دیکھیے۔ نکاح اُم کلثوم کے لیے (کتاب المعارف۔ تاریخ طراز مذہب ، ۶۷۔۴۷) باب تزوج ام کلثوم ہمراہ عمر الخطاب۔ (۳) انوار النعمانیہ، ج:۱، ص: ۱۲۵۔ (۴) ناسخ التواریخ، ج: ۲، وقائع عمر بن خطاب ، ص: ۳۲۹۔ (۵) شرائع الاسلام، باب الکفو۔ (۶) مجالس المؤمنین از شوستری طبع ایران، ص: ۸۹۔ (۷) تہذیب الاحکام، ج: ۲، ص: ۳۸۵، کتاب الجنائز۔ (۸) الاستبصار، کتاب الطلاق ، باب العدۃ، ص: ۱۸۵۔ ۱۸۴۔ (۹) فروع کافی، ج: ۲، ص: ۱۴۱۔ (۱۰) الشافی شریف مرتضیٰ، مطبوعہ: ایران، ص: ۴۳۱۔ ۳۵۴۔ (۱۱) تحفۃ العوام، ص: ۳۴۵۔ (۱۲) منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۱۷۰۔ (۱۳) مصائب النواصب، شوستری۔ (۱۴) کتاب الشہادت از موسوی، ص: ۳۹۸۔ (۱۵) رسائل شیعہ فی تحصیل احکام الشرعیہ، ج: ۱، ص: ۱۵۴۔ (۱۶) من لا یحضرہ الفقہ، ص: ۳۷۸۔ (۱۷) تہذیب احکام، ج: ۲، ص: ۲۴۲۔۲۳۸۔ باب العدۃ المتوفی عنہا زوجہا(۱۸) منتخب التواریخ، ص: ۲۰۔ (۱۹) نسب قریش، ص: ۴۱۔ (۲۰) جمہرۃ الانساب، ص: ۳۸۔ (۲۱) کتاب المعارف، ص: ۷۹۔ ۸۰۔ (۲۲) کتاب المحبر، ص: ۵۳۷۔ (۲۳) البدایہ والنہایہ، ج: ۸، ص: ۲۸۱، تحت ازواج و اولاد عمرؓ۔ (۲۴) سنن نسائی مجتبیٰ، ج: ۱، ص: ۲۰۱۔ (۲۵) سنن ابو داؤد، ج: ۲، ص: ۴۰۔ (۲۶) مصنف ابن ابی شیبہ، ج: ۴، ص: ۱۴۲۔ (۲۷) سنن کبریٰ بیہقی، ج: ۴، ص: ۳۸۰۔ (۲۹) سنن دار قطنی، ص: ۱۹۴۔ (۲۹) علامہ نوویؒ، المجموعہ،ج: ۵، ص: ۲۳۴۔ (۳۰) تاریخ مسعودی
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی دیگر ازواج میں خولہ بنت جعفر بن قیس حنفیہ سے (۲) محمد حنفیہؒ پیدا ہوئے۔ (۳) زوجہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ الصہباء اُم حبیب بنت ربیعہ سے عمر اور رقیہ پیدا ہوئے۔ (۴) زوجہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اُمّ البنین بنت حزام بن خالد بن ربیعہ سے عمر، عباس، جعفر، عبیداﷲ، عثمان پیدا ہوئے۔ (اہل بیت رسول کون، ص: ۱۱۸)۔ (۵) زوجہ اسماء بنت عمیسؓ سے یحییٰ ، عون، محمد پیدا ہوئے۔ (الاسماء والمصاھرات بین اھل البیت والصحابہ، ص: ۱۷۸) ۔ (۶) لیلیٰ بنت مسعود درامیہ، آپ کی اس بیوی سے عبداﷲ، محمد الاصغر، ابوبکر پیدا ہوئے۔ (۷) زوجہ امامہ بنت ابی العاصؓ اُموی سے محمد اوسط پیدا ہوئے، یہ اُمامہ سیدہ زینب بنت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں۔ (۸) زوجہ علیؓ، اُمِ سعید بنت عروہؓ بن مسعودؓ ثقفیہ سے دو بیٹیاں ام الحسن اور رملہ پیدا ہوئیں۔ (۹) مماۃ؍ محیاۃ بنت امراء القیس، اس بیوی سے ایک لڑکی حارثہ پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئی۔ آپ کا ایک بیٹا محمد اُمّ ولد سے تھا۔ اس تفصیل سے جو کہ مختلف مراجع و مصادر سے لی گئی ہے، ۹ ازواج سے ۱۸ بیٹے اور ۶ بیٹیاں ہیں، جبکہ باندیوں سے آپ کی ۱۲ بیٹیاں تھیں، باندیوں کے نام و نسب مجھے حاصل نہ ہو سکے البتہ تاریخ طبری جزء السادس، ص: ۸۹ پر ان باندیوں سے پیدا شدہ بنات کی مندرجہ ذیل تفصیل ہے۔
(۱) اُم ہانی، (۲) میمونہ، (۳) زینب الصغریٰ، (۴) رملہ صغریٰ، (۵) فاطمہ، (۶) امامہ، (۷) خدیجہ اُم الکرام، (۸) اُم سلمہ، (۹) جمانہ، (۱۰) نفیسہ اس کی کنیت اُم کلثوم صغریٰ تھیں، (منتہی الآمال)، (۱۱) اُمّ جعفر، (۱۲) اُمّ کلثوم۔ اولادِ علیؓ کی اس تفصیل کے بعد آپ کے ۱۸ بیٹے اور ۱۸ ہی بیٹیاں واضح ہو گئیں۔ سب سے اہم ایک بات جو مراجع اور مصادر میں موجود ہے، وہ ہے اُمّ کلثوم بنت علیؓ کی واقعہ کربلا میں موجودگی۔ یاد رہے کہ سیدنا علیؓ کی تین بیٹیوں کے نام اُمّ کلثوم ہے۔ (۱)ایک اُمّ کلثوم جو سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے تھیں، جن کا نکاح خلیفہ دوم عمر بن الخطاب سے ہوا، زید اور رقیہ دو اولادیں ہوئیں، زید اور ان کی ماں بنت فاطمہؓ، اُمّ کلثومؓ ایک ہی دن میں فوت ہوئے اور یہ کربلا سے پہلے فوت ہو گئیں تھیں۔ کربلا میں زندہ اور موجود اُمّ کلثوم یقینا آپ کی دوسری کوئی بیٹی تھی۔ وہ زوجہ عمر بن خطابؓ نہ تھیں، تین اُمّ کلثوم نام کی حضرت علی کی بیٹیاں تھیں۔ پانچ بیٹیوں سے نسل چلی، (۱) حسنؓ، (۲) حسینؓ، (۳) محمد حنفیہ، (۴) عباسؓ، (۵) عمر اطرف
حسن بن علیؓ:
مشہور قول کے مطابق آپ کی ولادت ۱۵؍ رمضان ۳ھ مدینہ ہوئی، وفات ۵؍ ربیع الاوّل ۴۹ھ ہے۔ (احسن المقال، ج:۱، ص۳۱۷، المعارف، ص: ۹۲)، حاکم مدینہ سعید بن عاص نے نمازِ جنازہ پڑھائی (المعارف، صفحہ ۹۲)
اولاد میں بارہ بیٹے : (۱) زید، (۲) حسن مثنیٰ، (۳) حسین الاثرم، (۴) طلحہ، (۵) اسماعیل، (۶) عبداﷲ، (۷)حمزہ، (۸)یعقوب، (۹) عبدالرحمن، (۱۰) ابوبکر، (۱۱) القاسم، (۱۲) عمر۔
ان میں تین عبداﷲ، ابوبکر، قاسم کربلا میں شہید ہوئے اور بیٹیوں میں پانچ ہیں: (۱) اُمّ الحسن، جو کہ عبداﷲ بن زبیرؓ کی زوجہ تھیں۔ (۲) اُمّ سلمہ زوجہ عمرو بن منذر بن زبیرؓ ہے۔ (۳) اُمّ عبداﷲ کی شادی علی بن حسینؓ بن علیؓ سے ہوئی۔ (کتاب المحبر، ص: ۵۲)۔ (۴) اُمّ کلثوم کا نکاح علی بن عبداﷲ بن عباس سے ہوا۔ (۵) فاطمہ (نسب قریش، ص: ۵۱۔۵۰۔ عمدۃ المطالب فی انساب آل ابی طالب، ص: ۶۱) چار فرزندوں کی نسل چلی۔ (۱) زید، (۲) حسن مثنیٰ، (۳) حسین اثرم، (۴)عمر۔ حسین اثرم اور عمر کی اولاد کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اب دنیا میں صرف دو فرزندوں (۱) زید، (۲) حسن مثنیٰ کی نسل جاری ہے۔
حسین بن علیؓ:
آپ کی ولادت باسعادت پیر ۵ شعبان ۴ھ مطابق ۶۲۶ء ، ۱۰ جنوری اور شہادت ۱۰ محرم ۶۱ھ، ۱۰؍ اکتوبر بروز بدھ، ۶۸۰ء۔ (حوالہ جوہر تقویم از ضیاء الدین لاہوری، ص: ۶۳)
عام مؤرخین نے آپ کے پانچ بیٹے ذکر کیے ہیں، (۱) علی الاکبر، یہ کربلا میں شہید ہوئے، جوان تھے، ۲۱ ،۲۲ برس عمر تھی۔ آپ کی والدہ آمنہ (لیلیٰ) بنت ابی مُرّۃ بن عروہ بن مسعود ثقفیہ ہیں، لیلیٰ کی ماں میمونہ ابو سفیانؓ بن حرب بن اُمیہ کی بیٹی تھی۔ علی اکبر سیدنا معاویہؓ کی بھانجی لیلیٰ کے بیٹے تھے۔ (نسب قریش، ص: ۵۷۔ منتہی الآمال، الارشاد)
۲۔ علی اوسط (زین العابدینؓ) ان کی ماں غزالہ، سلافہ تھیں، بعض نے کہا کہ یہ سندھیہ تھیں اور بعض نے اسے ایرانی بادشاہ شاہ یزدگرد کی بیٹی لکھا ہے۔
(۳) علی الاصغر ان کی ماں باندی تھیں، یہ بھی کربلا میں شہید ہوئے۔
(۴) جعفر کی ماں قبیلہ قضاعہ سے تھیں، یہ والد کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ (احسن المقال، ج: ۱، ص: ۵۸۹)
(۵) عبداﷲ یہ بھی کربلا میں شہید ہوئے، ان کی ماں رباب بنت امرؤ القیس تھیں، آپ کی دو بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے۔ (۱) سکینہؓ یہ عبداﷲ کی سگی بہن تھیں، ان کی ماں رباب بنت امرؤ القیس تھیں۔ یہ کربلا میں موجود تھیں اور ان کی شادی سیدنا حسنؓ کے بیٹے عبداﷲ سے واقعہ کربلا سے پہلے ہو چکی تھی۔ یہ حادثہ کربلا میں بچی نہ تھیں، بلکہ شادی شدہ تھیں ۔ حوالہ دیکھیے: تاریخ الائمہ، ص: ۲۸۰۔ اعلان الوریٰ، ص: ۱۲۷)۔ سکینہؒ کا نام آمنہ یا امیمہ تھا، سکینہ لقب تھا۔ آپ کی وفات ۱۱۷ھ میں ہوئی، آپ کا مزار شام میں ہے۔ (احسن المقال، ج: ۱، ص: ۵۹۰۔ ۵۸۹)
عبداﷲ بن حسنؓ کربلا میں شہید ہو گئے تو ان کے بعد سیدہ سکینہؒ نے مصعب بن زبیرؓ سے نکاح کیا اور ایک بیٹی فاطمہ پیدا ہوئی۔ پھر عبداﷲ بن عثمان بن عبداﷲ بن حکیم بن حزام سے شادی ہوئی اس سے (۱) حکیم، (۲) عثمان (قرین)، (۳) ربیحہ پیدا ہوئے۔
یہ ربیحہ حضرت حسینؓ کی نواسی ہیں، اس کا نکاح عباس بن ولید بن عبدالملک بن مروانؓ، سے ہوا، سکینہؒ کی پھر شادی زید بن عمرو بن عثمانؓ بن عفان سے ہوئی۔ زید کے بعد سکینہ نے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف سے نکاح کیا اور ابراہیم کے بعد الاصبع بن عبدالعزیز بن مروانؓ سے شادی کی۔ گویا کہ سکینہ نے چھے نکاح مختلف اوقات میں کیے۔
(نسب قریش، ص: ۵۹۔ کتاب المعارف، ص: ۹۴۔ کتاب المحبر، ص: ۴۳۸)
فاطمہ بنت حسینؓ، دوسری بیٹی ہیں، اُن کی ماں اُمّ اسحاق بنت طلحہ بن عبیداﷲ تھیں، فاطمہ بنت حسینؓ کی پہلی شادی حسن مثنیٰ بن حسنؓ مجتبیٰ سے ہوئی، جس سے (۱) عبداﷲ، (۲) حسن، (۳) ابراہیم، (۴) زینب، (۵) اُمّ کلثوم پیدا ہوئیں۔ (نسب قریش، ص: ۵۱) حسن مثنیٰ کی موت کے بعد ان کا نکاح عبداﷲ بن عمرو بن عثمانؓ سے ہوا، (نسب قریش، ۵۹) ۔ سلسلۂ نسل حضرت علی اوسط (زین العابدین) کے چھے فرزندوں سے جاری ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کا آغاز:
سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲ عنہا سے آپ کا نکاح مبارک ۱۵ قبل از نبوت ستمبر ۵۹۵ء /۲۷ قبل از ہجرت، جب آپ کی عمر مبارک ۲۵ برس اور سیدہ خدیجہؓ کی عمر مبارک ۳۰ برس تھی۔ شادی کے تین سال بعد ۵۹۸ء میں جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر ۲۸ برس تھی قاسمؓ پیدا ہوئے۔ عبداﷲ نبوت کے سال مکہ میں پیدا ہوئے اور تیسرے بیٹے ابراہیم جو کہ جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ذی الحجہ ۸ھ میں ہجرت کے بعد مدینہ میں پیدا ہوئے۔
بناتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ صرف ایک بیٹا ابراہیم سیدہ ماریہ قبطیہ سے تھا، باقی ساری اولاد سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے تھی۔ چار بیٹیاں اور دو بیٹے سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہاسے پیدا ہوئے۔
سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا:
سیدہ زینبؓ کی ولادت نکاح کے پانچ برس کے بعد ۶۰۰ء /۲۳ قبل از ہجرت میں ہوئی، اس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۳۵ برس تھی۔ ظہور اسلام کے وقت سیدہ زینبؓ کی عمر ۱۰ سال تھی۔ چودہ برس کی عمر میں ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاصؓ بن ربیع سے ہوئی، ابوالعاصؓ کی ماں ہالہ بنت خویلد سیدہ خدیجہؓ کی سگی بہن تھیں۔ ابوالعاص سے آپ کی اولاد میں (۱) علی اور (۲) اُمامہ تھے۔ امامہ زوجہ علیؓ بن ابی طالب تھیں۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسہ اور نواسی:
یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بڑے نواسہ علی بن ابو العاصؓ اور بڑی نواسی اُمامہ بنت ابوالعاص تھیں۔
نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم علیؓ بن ابو العاصؓ:
یہ ہجرت مدینہ سے ۸ سال قبل ۶۱۵ء میں پیدا ہوئے، فتحِ مکہ ۸ھ کے دن یہی علیؓ سبطِ رسول حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناقہ پر ان کے ردیف تھے۔ (رحمۃ للعالمین، ج: ۲، ص: ۱۰۴)
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی نے (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج: ۲، ص: تحت علی بن ابی العاص) یہی لکھا ہے۔ فتح مکہ کے وقت ان کی عمر ۵ برس تھی۔ ابن حجر عسقلانی نے ابن عساکر کے حوالہ سے یہ تحریر کیا ہے کہ (انہ قتل یوم الیرموک) یہ یرموک کے معرکہ میں جو ۱۳ھ مطابق ۶۳۵ھ، ۲۰ برس کی عمر شہید ہوئے، ان سے قبل ان کے والد محترم شہید ختمِ نبوت، شیر حجاز، سیدنا ابوالعاصؓ بن ربیع یمامہ میں شہید ہو چکے تھے۔ سیدہ زینبؓ کے بارے میں اہلِ سِیَر کہتے ہیں کہ سفرِ ہجرت کے دوران میں لگا ہوا زخم دوبارہ تازہ ہو گیا، یہی زخم آپ کی شہادت کا سبب بنا اور آپ ۸ھ مطابق ۶۳۱ء میں ۳۱ برس کی عمر میں شہید ہوئیں۔ سیدہ زینبؓ کا پورا گھرانہ شہداء کا ہے۔ خود شہید، خاوند شہید یمامہ، بیٹا علی شہید یرموک، داماد سیدنا علی المرتضیٰؓ(خاوندامامہؓ) شہید۔
سیدہ رقیہ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم:
یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں، بعثت سے نو سال پہلے ۶۰ء میں پیدا ہویں، تیرہ، چودہ برس کی عمر میں سیدنا عثمان غنیؓ سے شادی ہوئی۔ نبوت کے پانچویں سال عثمانؓ اور رقیہؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ کے زمانۂ قیام میں عبداﷲ بن عثمانؓ پیدا ہوا۔ مؤرخین نے اس عبداﷲ کو ۴ھ میں چھوٹی عمر میں مرغ کی ٹھونگ آنکھ میں مار کر فوت شدہ لکھ دیا ہے۔ جن روایات میں عبداﷲ کی وفات کا بچپن میں ہونا مذکور ہے، وہ تمام واقدی کی سند سے ہیں، واقدی سے غالباًست و سبعین میں سے ایک عدد سبعین چھوٹ گیا اور صرف ست رہ گیا جسے بعد میں آنے والے نقل کرتے رہے۔ برصغیر پاک و ہند میں نواسۂ رسول عبداﷲ بن عثمان کی نسل زیادہ آباد ہے، جن کا انتقال مشہور، مؤرخ مسعودی کی تحقیق کے مطابق چھہتر سال کی عمر میں ہوا۔ (حوالہ مروج الذہب، مطبوعہ: ۱۹۷۴، ج: ۲، ص: ۳۴۱) ۲ھ مطابق ۶۲۴ھ رمضان میں بعمر ۲۴ برس سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔
سیدہ اُمّ کلثومؓ:
سیدہ اُمّ کلثوم کی ولادت ۶۰۴ء، ظہورِ اسلام سے چھے برس قبل ہوئی۔ ۲۲ برس کی عمر میں ۶۲۵ء /۳ھ، آپ کا عثمان سے نکاح ہوا، اولاد کوئی نہ ہوئی اور شعبان ۶۳۰ء /۹ھ برس کی عمر میں وفات پائی۔
سیدہ فاطمہؓ:
نبوت سے پانچ برس پہلے ۶۰۵ء میں پیدا ہوئیں۔ ۶۲۳ء /۳ھ ۱۸ برس کی عمر میں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے نکاح ہوا۔ حسنؓ، حسینؓ، زینب، اُمّ کلثوم اولاد تھی۔ ۲۹۔۳۰ برس کی عمر میں ۳؍ رمضان ۱۱ھ انتقال ہوا۔ نمازِ جنازہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پڑھائی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.