تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

پنجاب چیرٹی ایکٹ 2018ء……مدارس کی بندش کا حکومتی حربہ

مولانا زبیراحمد صدیقی (مدیر جامعہ فاروقیہ شجاع آباد)
حمد وثناء رب لم یزل کے واسطے، جس نے کائناتِ عالم کو بنایا۔ درود وسلام سید کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور، جنہوں نے کائنات وعالم کو سنوارا۔ امابعد!
اسلامیان پاکستان خوب آگاہ ہیں کہ 9/11کے بعد مغرب وعالم کفر کی اسلام کے خلاف چومکھی لڑائی جاری ہے۔ مغرب بہر صورت اسلامی شناخت، اسلامی تہذیب، اسلامی اقدارو افکار اور اسلامی تعلیمات کا خاکم بدھن خاتمہ چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مغرب نے عالم اسلام پر دہشت گردی کے نام پر جنگ مسلط کر کے پورے عالم کا امن سبوتاژ کیا۔ لاکھوں افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، اربوں ڈالر کے نقصانات ہوئے ،لیکن اس جبر وستم کے باوجود دین کی حقانیت کھل کر سامنے آئی اوریہ تیروتفنگ،آتش وبارود، بری و بحری اور فضائی یلغار گوانتانا مو، ابو غریب، بگرام ائربیس اور اس جیسی جیلیں بھی اسلام کو ختم نہ کرسکیں،بلکہ اسلام دنیا کا سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب بن کر سامنے آیا۔ دشمنان اسلام کی حسرت پوری نہ ہو سکی، افغانسان میں شکست فاش اور عراق میں ناکامی ان دشمنان اسلام کے منہ پر کالک بن کر نمایاں ہونے لگی، تو اب جنگ کا رخ تہذیب و کلچر، تعلیم ،افکار ونظریات وغیرہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ عالم اسلام میں تہذیبی جنگ کے بعد اب تعلیمی جنگ مسلط کی جارہی ہے، تہذیبی محاذ پر کامیابی کے حصول کے لیے پاکستان میں مغربی اثر و رسوخ سے میڈیا کو کنڑول کر کے گزشتہ دو دہائیوں میں خوب فحاشی عریانی، بے راہ روی اور آوارگی کا کلچر متعارف کرایا گیا اور پھر مقننہ و عدلیہ کے ذریعے اس سب کو قانونی حیثیت دی گئی۔ عدالتوں میں سب سے زیادہ کیسز خواتین کی جانب سے نام نہاد خلع کے دائر کئے جارہے ہیں۔ زوجین کے معاملے میں شوہر کو سنے بغیر نیز عدالتوں کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ عام تاثر قائم ہو گیا ہے کہ زوجین کے تنازع میں عدالتیں بیوی کو ہی سپورٹ کر تی ہیں، مشرف دور سے زنا بالرضاء توگویا جرم ہی نہیں رہا، اس محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کو تعلیمی اور فکری محاذ پرچت کرکے انہیں دین سے برگشتہ کیا جارہاہے، اس سلسلہ میں اسکول وکالج کے نصابوں کو مذہبی تعلیم و تربیت سے عاری کرنے کے بعد اب مدارس کی دینی تعلیم کو غیر مؤثر کرنے یا مدارس کو اسکول وکالج میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر زور وشور سے کام جاری ہے، ہمارے حکمران مغربی دباؤ کے آگے فوراً چت ہوکر اپنے ملک، مذہب، تہذیب، تمدن، عوامی رائے عامہ، قیام پاکستان کے اغراض، ملکی آئین کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر جی حضوری کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے مدارس ،علماء اور مذہبی کارکنان پر قیامت ڈھائی ،دینی مسلمہ ایشوز کو چھیڑنے کی کوششیں کیں، جن کا خمیازہ بھی انہیں الیکشن میں بھگتنا پڑا، ان کے جانے کے بعد نو قائم شدہ تحریک انصاف کی حکومت کے قائد نے آتے ہی مدارس وجامعات سے انجینئرز وسائنسدان نکالنے کی نوید سناکر قوم کو مسحور کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اس اعلان کا مقصد سوائے مدارس کی حریت کے خاتمہ کے اور کچھ بھی نہیں۔ اس موضوع پر تو ان شاء اﷲ زندگی رہی تو کسی اور موقع پر جامع تبصرہ تحریر کیا جائے گا۔ سر دست میاں شہباز شریف کی حکومت کے منظور کردہ چیرٹی ایکٹ منظور شدہ 28فروری 2018ء جس پر گورنر نے 7مارچ2018ء کو دستخط کئے اور 8 مارچ2018ء پنجاب گزٹ میں صفحہ نمبر6329-36پر نشر ہوا، کے خدوخال اس کے اثرات و مضمرات اور دینی اداروں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس ایکٹ کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱)…… چیرٹی یعنی جملہ خیراتی ادارے جو پہلے سے رجسٹرڈ ہیں، اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد ان کی رجسٹریشن منسوخ متصور ہوگی اور انہیں اس نئے چیرٹی ایکٹ کے تحت دوبارہ رجسٹرڈ ہونا ہوگا۔ واضح رہے کہ جملہ دینی مدارس، مساجد، مذہبی انجمنیں، رفاہی ادارے چیرٹی کے ضمن میں آتے ہیں اوراس قانون کااطلاق ان سب پر ہوگا، چنانچہ اس ایکٹ میں خیراتی مقاصد کو بھی متعین کیا گیا ہے، ایسے گیارہ مقاصد بیان کیے گئے ہیں جن میں تعلیم و تعلم کا فروغ، غربت کی روک تھام، صحت و زندگی کے بچاؤ کی خدمت ،کمیونٹی کی ترقی، فنی اورثقافتی ورثہ کا فروغ، مطالعاتی سرگرمیاں، مذہبی وملی ہم آہنگی کا فروغ، ماحولیات کا تحفظ، ضرورت مندوں کی مدد وغیرہ شامل ہیں۔
۲)…… اس ایکٹ کے تحت اداروں کی رجسٹریشن کے لیے ضروری ہوگا کہ درج ذیل دستاویزات محکمہ کو جمع کروائے جائیں۔
۳)…… رجسٹرڈ ادارہ کو ایک ڈیکلریشن تیار کرنا پڑے گا، جس میں درج ذیل امور کو بیان کرنا ضروری ہوگا۔
(۱) معاونین کے نام وپتے (۲) عطیہ کی تجویز کردہ مقدار
(۳) فنڈ جمع کرنے والوں کے نام و پتے (۴) فنڈ وصول کرنے والوں کے نام وپتے
(۵) فنڈ جمع کرنے کے اہداف (۶) فنڈ رکھنے والے بینکوں یا افراد کے نام وغیرہ
۴)…… اس مقصدکے لیے حکومت پنجاب ایک کمیشن تشکیل دے گی جو تین سے پانچ کمشنرز پر مشتمل ہوگا، اس میں چیئرمین شامل ہوگا جسے حکومت متعین کر سکتی ہے، اس مقصد کے لیے ریٹائرڈ وحاضر سروس سول سرونٹ یا ججوں یا پرائیویٹ افراد کو متعین قواعدوضوابط یا حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قوانین کے مطابق کمشنر مقررکیا جاسکتا ہے، اس کمیشن کا چیئرمین ہوگا اور وہ انتظامی امور کے لیے چیف ایگزیکٹو مقرر کرے گا۔ کمیشن کی ذمہ داریاں درج ذیل ہوں گی۔
۱)…… کمیشن ایکٹ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے افعال سرانجام دے گا۔
۲)…… خیراتی اداروں پر عوامی اعتماد کو بر قرار رکھے گا۔
۳)…… ان اداروں کو رجسٹرڈ کرے گا۔
۴)……اس بات کو یقینی بنانا کہ چیرٹی اور خیراتی فنڈ کی انتظامیہ ان کے کنٹرول میں قانون کے مطابق عمل کریں۔
۴)……چندہ وصول کرنے والوں کی کڑی نگرانی کرنا اور احتساب کے لیے طریقہ کار متعین کرنا۔
۵)……اگر ضروری ہو تو چیرٹی یا خیراتی فنڈ کے معاملات میں انکوائری کرنا۔
۶)……ڈپٹی کمشنر کے ذریعے منظور شدہ مجموعوں کو تبدیل یا منسوخ کرنا۔
۷)……ان اداروں کی سالانہ آڈٹ رپورٹ حاصل کر کے ان کی جانچ پڑتال کرنا۔
۸)……کسی بھی ادارہ کا خصوصی آڈٹ کرانا۔
۹)……ان اداروں کے لیے مناسب اکاؤنٹنگ کا انتظام اور استعمال کے لیے ہدایات جاری کرنا۔
۱۰)……کمیشن کسی بھی چیرٹی،چیرٹی ٹرسٹی،چیرٹی سے فائدہ حاصل کرنے والے، کسی خیراتی فنڈ یا کسی کاروباری ادارہ کی جانب سے چیرٹی پر کیے جانے والے اخراجات کا ریکارڈ، ڈیٹایا اس سے متعلق معلومات طلب کر سکتا ہے۔
۱۱)……کمیشن مالیاتی اداروں سے مالیاتی ریکارڈوں کی تو ثیق کر سکتا ہے،اس مقصد کے حصول کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات بھی حاصل کر سکتا ہے۔
اداروں میں بے پناہ سرکاری مداخلت:
چیرٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر۸ کے تحت حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کمیشن کسی ٹرسٹی( ادارہ کے عہدیدار یارکن) یا کسی افسر (ناظم مالیات یا کوئی دیگر ملازم) یا کسی عہدیدار کا تقرر کر سکتا ہے، اگر چیرٹی کسی ٹرسٹی، افسر کونکالنے میں اور اس کی جگہ کسی نئے کا تقرر کرنے میں ناکام ہو جہاں۔
ٓA . کسی ٹرسٹی یا افسر کو بد اخلاق، بد دیانتی اور دھوکہ دہی کے جرم میں مجرم قرار دیا گیا ہو یا
B . کوئی ٹرسٹی بینک دیوالیہ قرار دیا جا چکاہو
.C کسی ٹرسٹی یا افسر کا غلط عمل جو چیرٹی کے مجموعی مفاد کو نقصان پہنچائے یا عدالت یا کمیشن کی جانب سے دیگر وجوہ کی بنیاد پر۔
دفعہ نمبر۹ کے تحت تحریر ہے کہ:
۱)……کمیشن بذات خود یا حکومت کی طرف سے درخواست پر یا کسی فرد کی جانب سے آمدہ شکایت پر چیرٹی کے معاملات میں دخیل ہو کر انکوائری کر سکتا ہے، تاکہ تحقیق کی جائے کہ کہیں کوئی خیراتی فنڈ غلط جگہ یا غلط مد میں صرف نہیں ہو رہا یا ایسا کوئی عمل جس سے اعتماد کو نقصان نہیں پہنچ رہا ۔
ؒL . اگر ذیلی دفعہ نمبر۱ کے تحت انکوائری کے نتیجے میں کمیشن کو پتہ چلے کہ کسی بھی قانون کے تحت کسی جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے یا کسی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے، تو اسے قانون کے مطابق نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس بطور حوالہ (ریفرنس) بھیجا جاسکتا ہے۔
رجسٹریشن اتھارٹی:
دفعہ نمبر۱۲ کے تحت
۱)…… ہر چیرٹی کمیشن کے ساتھ حکومت کی جانب سے بذریعہ نوٹیفکیشن مقرر کردہ تاریخ کے اندر اندر اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروائے گا۔
۲)…… کوئی چیرٹی اس وقت تک خیراتی فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش نہیں کر سکتی، جب تک وہ اس ایکٹ کے تحت اپنے آپ کو رجسٹرڈ نہیں کر لیتی۔
دفعہ نمبر۱۵ کے تحت اس ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونے کے لیے ہر تنظیم کو رجسٹریشن اتھارٹی کو چیرٹی کے مقاصد، ذرائع آمدنی، اخراجات کی نوعیت یاکوئی دیگر معلومات یا دستاویز جو کمیشن بعد میں مقرر کرے، فراہم کرنا ضروری ہوں گے۔ نیز رجسٹریشن اتھارٹی معقول وجوہات تحریری طور پر لکھنے کے ساتھ کسی تنظیم کو رجسٹرڈ کرنے سے انکار کر سکتی ہے، اگر چیرٹی کے اپنے ڈیکلریشن میں بیان کردہ اہداف اس کے خیراتی مقاصد سے مطابقت نہ رکھتے ہوں یا کسی دوسری معقول وجہ سے۔
ادارہ کے نظام تک ہر ایک کی رسائی ہوگی:
دفعہ نمبر۱۶ کے تحت
۱)……چیرٹیز کا رجسٹر ایک عوامی دستاویز ہوگی جو کسی بھی معقول وقت میں عوامی انسپیکشن کے لیے کھولا جا سکتا ہے۔
کوئی بھی شخص چیرٹی کی جانب سے فراہم کردہ تمام دستاویزات/معلومات کمیشن کی جانب سے مقررکردہ فیس کی ادائیگی کے بعدحاصل کرسکتاہے۔
چندہ جمع کرنے پر پابندی:
ایکٹ کی دفعہ نمبر ۲۰ کے تحت طے ہے کہ
۱)……کسی چیرٹی کا کوئی سفیر اس وقت تک نہ چندہ کرے گا اور نہ ہی اس کی اپیل کرے گا جب تک وہ مطلوبہ کلیکشن (جمع کرنے ) سے قبل اس چندہ کے حوالے سے ایک اعلامیہ جاری اور اسے منظوری دینے والی اتھارٹی کے سامنے پیش نہ کرے اورمنظوری دینے والی اتھارٹی اس چندہ کے حوالہ سے تحریری اجازت نہ دے دے ۔
۲)…… منظوری دینے والی اتھارٹی اس شق کے تحت کسی منظوری دینے سے انکارکر سکتی ہے، اگر چیرٹی کے سفیر یا چندہ اکٹھا کرنے والے افراد خلوص نیت کے حوالے سے مطمئن نہ کرسکیں یا منظوری دینے والوں کو خیراتی فنڈ کے تحفظ یا جس مقصد کے لیے فنڈ اکٹھے کیے جانے ہیں، ان مقاصد میں انہیں لگانے کے حوالہ سے مطمئن نہ کیا جاسکے۔
۳)…… منظوری دینے والی اتھارٹی منظوری کو ایسی شرائط سے معلق کر سکتی ہے، جس سے فنڈ کے مناسب تحفظ اپنے مطلوبہ مقاصد میں اس کے استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔
۴)……اگر منظوری دینے والی اتھارٹی چندہ کو جمع کرنے کی منظوری دیتی ہے، تو اس کو کسی خاص مدت کے لیے سفیر کے نام ایک سرٹیفکٹ جاری کرے گی جس سے وہ کمیشن کے مجوزہ قوانین کے مطابق مخصوص قابل شناخت چندہ اکٹھے کرنے والوں کے ذریعے مخصوص قابل شناخت رسیدوں کے ساتھ چندہ وصول کر سکیں گے۔
اداروں پر لاگو ہونے والی سزائیں:
دفعہ نمبر۲۴کے تحت درج ہے کہ:
۱)…… جائزہ یا آڈٹ کے بعد اگرکمیشن کو یقین ہو جائے کہ چیرٹی ایکٹ کے تحت متعین کی گئی ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے تو کمیشن حسب ذیل کاروائی کر سکتا ہے۔
A . رجسٹریشن کی معطلی یا منسوخی B .چیرٹی یا تنظیم پر جرمانہ عائد کر سکتا ہے جس کی مالیت دس لاکھ روپے سے زائد نہ ہو۔
چندہ کو کاروبار اور انشورنس میں لگا نا متولی کی ذمہ داری ہوگی:
دفعہ نمبر۲۷ کے تحت چیرٹی کے متولی کے ذمہ ہو گا۔
A . چیرٹی کے اثاثوں کا تحفظ B . خیراتی فنڈ کا تحفظ، مناسب سرمایہ کاری اور استعمال
.E چیرٹی کی جائیداد کی خرید وفروخت، اجارہ یا انشورنس کے معاملات کو دیکھنا۔
آڈٹ و معائنہ:
دفعہ نمبر ۳۰ کے تحت
ا)…… کمشنر یا منظوری دینے والی اتھارٹی کسی معقول وجہ پر کسی مخصوص آڈیٹرسے چیرٹی کے اکاؤنٹ کا آڈٹ یاری آڈٹ (دوبارہ آڈٹ) کا حکم دے سکتے ہیں، جن کا خرچ چیرٹی یا وہ شخص ادا کرے گا جس نے چیرٹی کے خلاف خصوصی آڈٹ کرنے کی درخواست دی ہو۔
۲)…… کمشنر یا منظوری دینے والی اتھارٹی اس ایکٹ یا اس کے کسی قانون کے تحت چلنے والے کسی بھی اکاؤنٹ کا معائنہ کر سکتی یا کروانے کا حکم دے سکتی ہے۔
سزا:
دفعہ نمبر۳۲ کے تحت
۱)…… کوئی بھی شخص جو بے ایمانی، دھوکہ دہی یا فراڈ سے خیراتی فنڈ جس پر اس ایکٹ کا اطلاق ہے، کے جمع کرنے سے متعلق کسی بھی ریکارڈ کو چھپاتا ہے یا بددیانتی سے خراب کر تا ہے تو وہ ایکٹ کی خلاف ورزی کر نے والا (مجرم) متصور کیا جائے گا۔
۲)…… کوئی شخص جو اس ایکٹ کی کسی شق اس یکٹ کے تحت بننے والے احکام یا ہدایات کی حکم عدولی کرے تو اسے سزا کے طور پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے چھ ماہ تک پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے، مگر یہ قید کی سزا پندرہ روز سے کم نہ ہوگی مزید اسے جرمانہ کے طور پر پچیس ہزار سے ایک لاکھ تک کی رقم بھی ادا کرنا ہوگی۔
دفعہ نمبر۳۵ کے تحت اس ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے فردسے عدالت غلط طریقے سے اکٹھا کیا گیا فنڈ ضبط کر سکتی ہے یا غلط طریقے سے خرچ کیا گیا فنڈواپس وصول کر سکتی ہے۔
قارئین کرام!! یہ ہے چیرٹی ایکٹ۲۰۱۸ کا خلاصہ ایکٹ کو تفصیلی طور پر پنجاب گزٹ صفحہ نمبر۳۶۔۶۳۲۹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ بالا ایکٹ نیکٹا کے احکامات کی روشنی میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہو کر قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے، جبکہ باقی تین صوبوں میں بھی یہ قانون آنے والا ہے۔
مذکورہ بالا قوانین سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بہر صورت پر عزم ہے، ایسے قوانین جن میں اداروں میں کھلم کھلا مداخلت ہو، سرکاری اداروں کے لیے بھی نہیں چہ جائیکہ خالص رفاہی تعلیمی ادارے حکومت سے ایک پائی کی امداد لینے کی بجائے اربوں روپے حکومت کو ٹیکس، بجلی، گیس، فون کی مد میں ادا کرتے ہیں انہیں جکڑ لیا جائے۔
اگر مذکورہ قانون پر مکمل عملدرآمدہوجاتا ہے جیسا کہ حکومتی مشن ہے تو آیئے دیکھتے ہیں اس سے کیا کیا نقصانات رونما ہوں گے۔
۱)…… مدارس وخیراتی ادارے غیر اعلانیہ طور پر حکومتی تحویل میں چلے جائیں گے، ان کی آزادی فکر وعمل سلب ہو کر رہ جائے گی۔
۲)…… ادارہ (مدرسہ/مسجد/ٹرسٹ/رفاہی تنظیم)کی محنت کو جب جو چاہے گا کھلواڑ بنا کر رکھ دے گا، حکومتی اہلکاروں کی مداخلت نہ صرف رشوت ستانی کا بازارگرم کرے گی، بلکہ بیرونی عناصر، حاسد طبقات، علاقائی مخالفین کسی بھی ادارہ کو کام نہیں کرنے دیں گے۔
۳)…… حکومتوں کی ان اداروں میں معاونت تو نہ کبھی ہوتی ہے اور نہ ہوگی، الٹا ایک ایک کام میں مداخلت سے کام ٹھپ ہو کر رہ جائیں گے۔
۴)…… قربانی کی کھالوں کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی فراہمی پر اعتراض لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فراہمی حکومت سے منظوری کے بغیر ہوئی ہے، لہذا اس پر فوجداری مقدمات اور سزاؤں کا اہل مدارس کو سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ امسال بعض اہل مدارس کو بلا اجازت قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے پر ایک ایک سال سزا اور مبلغ پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جا رہا ہے۔
۵)……معاونین کے تفصیلی کوائف ایجنسیوں اور حکومتوں کی دسترس میں ہوں گے، جس کی وجہ سے غیر اعلانیہ طور پر انہیں تنگ کیا جائے گا، ان کی انکوائریاں ہوں گی، جیسا کہ پہلے خوف و ہراس کا ماحول بنا دیا گیا ہے، نتیجتاً بچے کھچے لوگ بھی اپنی عزت وقار کے تحفظ کے لیے مدارس،مساجداور رفاہی اداروں کو چندہ دینا بند کردیں گے اور یہی اس چیرٹی ایکٹ کا مدعی ومنشاء محسوس ہوتا ہے ۔
۶)……اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد حکومتی مشنری اس قدر بااختیار ہو گی کہ وہ جائزنا جائز وجوہ کی بنیاد پر ادارہ کے عہدیدارن مثلاً مہتمم/نائب مہتمم/ناظم اعلیٰ/خزانچی یا دیگر کسی عہدیدار کو از خود تبدیل کر دیں یامجاز افسر یعنی ادارہ میں کام کرنے والے اکاؤنٹنٹ /ناظم/محاسب وغیرہ کو بدل دیں یعنی حکومت کی جانب سے ادارہ میں افراد لاکر بٹھادیں یہ سب اس بل کی بدولت ممکن ہوگا۔
۷)…… اس سب کے ساتھ ایک بڑا اندیشہ اس الزام کا بھی ہے کہ چندہ صحیح معنوں میں تعلیم وتعلم پر خرچ نہیں ہو رہا، بلکہ ادارہ کی دیگر تبلیغی ضروریات مثلاً جلسہ جات، اشاعت کتب ورسالہ جات یا تبلیغی اجتماعات وغیرہ پر خرچ کر کے فرقہ واریت پھیلائی جارہی ہے یا یہ چندہ انتہا پسندی کو فروغ دے رہاہے، اس سب پر چندہ کی ضبطی اور قانونی کاروائی کی تلوار بھی سروں پر موجود رہے گی۔
۸)…… مدارس کے وقف چندے جنہیں عام حالات میں کاروبار میں لگانا شرعاً ممنوع ہوتا ہے، بیوروکریسی کے ایما پر سرمایہ کاری بلکہ انشورنس تک میں لگاکر سود کا عنصر بھی مدارس اور اداروں کے ذرائع آمدن میں شامل کیا جائے گا۔
۹)…… اب تک جملہ مدارس ۱۸۶۰کے سو سائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن ہوتے رہے اوریہ ایکٹ قدیمی مؤثر اور متفقہ تھا اس کا خاتمہ سمجھ سے بالا ہے۔جبکہ ایسی مداخلت حکومت کی اپنی قائم کردہ یونیورسٹیوں ،کالجز اور اداروں میں بھی نہیں چہ جائیکہ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے اداروں میں یہ مداخلت ہو۔
۱۰)…… ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مدارس کی معاشی رگ کو بند کر کے مدارس پر قبضہ کر کے انہیں کوئی اور رنگ دینا چاہتی ہے، جو کام صدیوں سے انگریز اور ان کی معنوی اولاد نہ کر سکی اب اس حربہ سے موجودہ حکومتیں کر گزرنا چاہتی ہیں اس لیے عوام وخواص علماء کرام، سیاسی زعماء، صحافی حضرات، وکلاء اورتاجران سبھی کا فریضہ ہے کہ اس ظالمانہ قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ عدالت، پارلیمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں ،نیز پر امن عوامی احتجاج کا حق حاصل کریں ۔بصورت دیگر نہ صرف ملک سے دینی تعلیم کا خاتمہ ہو جائے گا، بلکہ دیگر رفاہی ادارے، ٹرسٹ، ہسپتال وغیرہ بھی بیوروکریسی کا کھیل بن جائیں گے۔

ضروری وضاحت
’’نقیب ختم نبوت‘‘ اگست 2018ء کے شمارہ میں صفحہ 31 پر ’’میرے شاہ جی‘‘ کے عنوان سے ’’سمیع اﷲ ملک‘‘ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہوا جو انٹر نیٹ پر ان کے نام سے موجود تھا، وہاں سے حاصل کر کے ادارہ نے شائع کردیا۔ یہ مضمون درحقیقت ان کا نہیں بلکہ مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری نشرو اشاعت جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار کا ہے جس کے شروع میں چند جملوں کا اضافہ کر کے سمیع اﷲ ملک صاحب نے مکمل مضمون اپنے نام سے شائع کردیا جس کو غلطی سے نقیب میں شامل کیا گیا۔ احباب اس کی تصحیح کرلیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.