تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تحریکِ آزادیٔ ہند کے ایک مجاہد راہنما…… ماسٹر تاج الدین انصاریؒ

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر
۱۹۴۷ء برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا بہت پُر آشوب زمانہ تھا۔ اس برس برصغیر میں بہت اہم واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات نے پنجاب کے مسلمانوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہی وہ برس ہے جس کی تاریخ ۱۴؍ اگست کو ہندوستان انگریز شہنشاہیت سے آزاد ہوا۔ سلطنتِ انگلشیہ کو ہندوستان چھوڑ کر واپس اپنے علاقے برطانیہ جانا پڑا۔ جہاں ہندوستان کے باسیوں کو آزادی ملی وہاں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آئی۔
مجلس احرار کے ایک ناموَر راہنما مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد لائل پور (فیصل آباد) تشریف لائے تھے۔ میں ان کے نام سے شناسا تھا۔ زیارت کی تمنا تھی جو ان کی لائل پور تشریف آوری سے پوری ہوئی۔ شہر میں اعلان ہوا، قاضی احسان احمد شجاع آبادی کی تقریر شہر کی جامع مسجد کلاں کچہری بازار میں ہو گی۔ لوگ کشاں کشاں جامع مسجد پہنچے، مجمع خاصا تھا۔ قاضی صاحب نے بڑی دل نشین تقریر فرمائی۔ تقریر کا ایک جملہ میرے ذہن میں سما گیا جو آج ستر برس بعد بھی کانوں میں گونجنے لگتا ہے اور لذت دے جاتا ہے۔ آپ نے انگریزوں کے ہندوستان میں تسلط اور پھر ہندوستان سے الوداع کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا۔ فرمانے لگے:
’’لائل پور کے باسیو! انگریز کہتا تھا کہ میری حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا اور میری مرضی کے بغیر ہندستان میں کسی درخت کا پتہ تک نہیں ہلتا۔ لائل پور کے باسیو! انگریز کا پتہ ڈھونڈتا ہوں، مجھے انگریز کا پتہ نہیں ملتا‘‘۔
ماسٹر تاج الدین انصاری برصغیر پاک و ہند کے بڑے سیاسی راہنما تھے۔ انھوں نے برصغیر پاک و ہند کو انگریز سامراج سے آزادی دلانے میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کا خاندان کئی پشتوں سے پنجاب کے مشہور شہر لدھیانہ میں آباد تھا۔
لدھیانہ شہر کے لوگوں میں سیاسی شعور بہت زیادہ تھا جس کا اعتراف پورے برصغیر کے لوگوں کو تھا اور آج بھی ہے، جس کا ثبوت تحریکِ آزادیٔ ہند کا مؤرخ فراہم کرتا ہے۔ لدھیانہ شہر میں چوٹی کے سیاسی لیڈر پیدا ہوئے، جن میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفتی محمد نعیم لدھیانوی، ایم حمزہ (ایم این اے) جیسے سیاسی میدان کے شہسوار شامل ہیں۔ اس فہرست میں ماسٹر تاج الدین انصاری کا نام بھی چوٹی کے لیڈروں میں ہوتا ہے۔
ماسٹر تاج الدین انصاری کی پیدائش ۱۸۹۰ء میں لدھیانہ شہر میں ہوئی۔ لدھیانہ متحدہ پنجاب کا مشہور شہر تھا، جہاں پورے ہندوستان کی طرح مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی اکٹھے رہتے تھے۔ تقسیم کے وقت جب شہروں اور علاقوں کا بٹوارہ ہوا تو لدھیانہ مسلم اکثریت شہر ہونے کے باوجود ہندوستان کا حصہ بنا دیا گیا اور مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل ہونا پڑا۔ لدھیانہ کے سارے لوگ پاکستان کی طرح ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ماسٹر تاج الدین انصاری اگرچہ سیاسی آدمی تھے تاہم ان کا ہوزری کا کارخانہ تھا۔ ان کے کارخانے میں تیار شدہ مال پورے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر علاقوں میں بھی ایکسپورٹ ہوتا تھا۔ ۱۹۱۹ء میں امرتسر میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے ماسٹر تاج الدین انصاری کا رخ عملی سیاست کی طرف پھیر دیا۔ انھوں نے اپنے وسیع کار و بار کو خیر باد کہا اور کوچۂ سیاست میں قدم رکھا تاکہ برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے لیے خدمات سرانجام دے سکیں۔
امرتسر کا ایک مشہور شہر باغ جلیانوالہ کے نام سے مشہور ہے، اس باغ میں جلسہ ہو رہا تھا۔ جلسہ کے سامعین میں ہندو، مسلم اور سکھ سب شریک تھے۔ ایک انگریز جرنیل ڈائر کے حکم سے وہاں پولیس نے گولی چلا دی، جس کے نتیجہ میں سیکڑوں سامعین مارے گئے۔ بس اس واقعے نے ماسٹر تاج الدین کی زندگی کا رخ پھیر دیا اور انھوں نے اپنی بقیہ عمر انگریز سامراج کو ہندوستان سے نکالنے اور ہندوستان کے رہنے والوں کو آزادی دلانے کے لیے وقف کر دی اور اپنے آخری سانس تک انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہے۔ وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے، پھر مسلمانوں کی انتہائی مستعد جماعت مجلس احرارِ اسلام کے رکن بن گئے۔ اس جماعت کے سربراہ چودھری افضل حق تھے، جو آزادی کے متوالے اور اچھے لکھاری تھے۔
ماسٹر تاج الدین کا ہوزری کا کاروبار بہت وسیع تھا لیکن انگریز دشمنی اور آزادی کے حصول کی جدوجہد میں کاروبار ماند پڑ گیا لیکن انھوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ انگریز دشمنی کے بدلے میں کئی مرتبہ جیل گئے۔ جب رہائی ملتی پھر کسی تقریر کی وجہ سے دھر لیے جاتے اور جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔ ان کو اﷲ نے چاند سا بیٹا عطا کیا، جب بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس وقت بھی ماسٹر صاحب جیل ہی میں تھے، بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ان کو جیل ہی میں ملی۔ ماسٹر تاج الدین انصاری اپنے ملک سے بہت محبت کرتے تھے۔ انگریز دشمنی ان کے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ انگریز حکومت کو ملک سے بے دخل کرنا ہی ان کی زندگی کا مشن تھا۔
ماسٹر تاج الدین انصاری نے لدھیانہ کے مہاجر کیمپ سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی پاکستان کی طرف ہجرت کو ممکن بنایا۔ آپ مہاجر کیمپ کے انچارج تھے۔ مہاجر مسلمانوں کی خدمت کا کام آپ نے جذبۂ خدمت کے طور پر سرانجام دیا تھا۔ اس کے لیے باقاعدہ کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوا تھا۔ آپ آخر وقت تک کیمپ میں موجود رہے تاآنکہ آخری مسلمان خاندان بھی وہاں سے روانہ ہو کر سرزمین پاکستان پہنچ گیا۔ جب اتھل پتھل زیادہ ہوئی تو مسلمانوں پر سکھوں کے حملے بھی بڑھ گئے اور بہت سے مسلمان بھی شہید ہو گئے۔ ان تمام کے کفن دفن کا فریضہ بھی ماسٹر تاج الدین انصاری اور ان کے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں نے سرانجام دیا۔ ماسٹر تاج الدین انصاری حساس دل رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے نہایت تن دہی سے کام کیا۔ مسلمانوں کی ہجرت، سکھوں اور ہندوؤں کے حملے کے تمام واقعات آپ کے سامنے رونما ہو رہے تھے، اس کے لیے انھوں اپنے چشم دید واقعات کو سپرد قلم بھی کیا، اس کے لیے وہ روزانہ ڈائری لکھتے تھے اور واقعات کو کتابی شکل میں جمع کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب کو ’’سرخ لکیر‘‘ کا عنوان دیا جو بعد میں چھپ کر منظر عام پر بھی آئی۔ ان واقعات کو دیکھ کر، پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مذکورہ کتاب سرخ لکیر بعد میں ناپید ہو گئی۔ ان کے بیٹے نذیر اصغر کے پاس اس کے کچھ اوراق موجود تھے۔ اب شاید وہ بھی طاق نسیاں ہو گئے ہیں۔
ماسٹر تاج الدین انصاری مسلمانوں کے معروف لیڈر تھے، اس لیے ہندو سکھ ان کے دشمن تھے۔ اس دشمنی میں سکھ پیش پیش تھے، اسی دشمنی کے پیش نظر ہندوؤں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ جو شخص ماسٹر تاج الدین کا سر لے کر آئے گا اس کو پانچ ہزار روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔ اس زمانے میں پانچ ہزار بڑی خطیر رقم تھی، اﷲ تعالیٰ نے ماسٹر تاج الدین صاحب کی حفاظت کی اور وہ محفوظ رہے۔ اگرچہ ان پر ہندوؤں نے حملہ بھی کیا لیکن اﷲ نے ان کو امان میں رکھا۔ اسی دوران ایک روز لدھیانہ شہر میں لاؤڈ اسپیکر پر یہ انتہائی پریشان کن اعلان ہوا جس کے الفاظ تھے: ’’مسلمانوں کے لیے مہاجر کیمپ بن گیا ہے، سب مسلمان مہاجر کیمپ تشریف لے جائیں تاکہ لدھیانہ چھوڑ کر پاکستان جا سکیں۔ اس کام کے لیے ان کو پندرہ منٹ کی مہلت دی جاتی ہے، وہ لدھیانہ خالی کریں ورنہ ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری انتظامیہ پر نہ ہوگی‘‘۔
اس اعلان کے ساتھ ہی سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ راستہ چلتے اِکا دکا مسلمان کو دیکھ کر سکھ ہندو حملے کرتے اور پیٹ میں چھرا گھونپ دیتے تھے۔ ایسے عالم میں جب مسلمانوں کا لدھیانہ میں رہنا دو بھر ہو گیا تو ماسٹر تاج الدین انصاری مسلمانوں کے لیے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے، لیکن جب ہندو مسلم کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی اور لدھیانہ میں مسلمانوں کا رہنا ناممکن ہو گیا تو ماسٹر تاج الدین انصاری مسلمان مہاجر کیمپ میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے سر توڑ کوشش کرنے لگے۔ جب آخری مسلمان مہاجر کیمپ سے نکل گیا تب سب سے آخر میں ماسٹر صاحب نے بادل ناخواستہ لدھیانہ کو خیر آباد کہا اور پاکستان چلے آئے۔ انھوں نے خود تو لاہور میں قیام کیا لیکن ان کے اہل خانہ نے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ ماسٹر صاحب کا جواب بیٹا ہجرت کی اتھل پتھل کو برداشت نہ کر سکا اور ۳۸ برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے ماسٹر صاحب کی زندگی ہی میں فوت ہو گیا۔ یہ صدمہ ماسٹر تاج الدین صاحب کے لیے پیغامِ اجل ثابت ہوا، بیٹے کی وفات کے بعد ماسٹر تاج الدین کی صحت کو گھن لگ گیا اور وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔
سرگنگا رام ہسپتال میں ان کا علاج ہوتا رہا۔ بالآخر آزادی کا یہ متوالا یکم مئی ۱۹۷۰ء کو اﷲ کے حضور حاضر ہو گیا۔ ان کی نماز جنازہ لاہور میں ادا کی گئی۔ آج ماسٹر تاج الدین انصاری مرحوم جیسے کتنے ہی عظیم انسان زمین کی تہہ میں آسودہ ہیں۔ جنھوں نے اپنی زندگیاں آزادی پر قربان کر دیں اور لوگوں نے بھی ان کو اپنے ذہنوں سے بھلا دیا۔ ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کے تذکروں کو زندہ رکھا جائے اور نژادِ نو ان کے کارناموں سے اپنی زندگی کے لیے روشنی حاصل کرتی رہے۔ اس مضمون کے لیے بیشتر مواد محمد اسلم صاحب کی اہم کتاب ’’۱۹۴۷ء میں لدھیانہ کے مسلمانوں پر کیا گزری‘‘ سے حاصل کیا گیا۔ یہ کتاب تقریباً دو ہزار صفحات پر محیط ہے جس سے بڑی مفید اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
(مطبوعہ:’’: ہفت روزہ ختمِ نبوت‘‘۱۶ تا ۲۲ ؍ جولائی، ۲۰۱۸ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.