تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عکرمہ نجمی کا ترک مرزائیت کا اعلان

تحریر: عکر مہ نجمی ترجمہ: صبیح ہمدانی 
’’عکرمہ نجمی کبابیر (فلسطین) کے شہری ہیں، یہ پیدائشی قادیانی تھے اور زندگی بھر قادیانیت کی تبلیغ وترویج میں گزاری۔ فلسطین سے لندن (برطانیہ) میں قادیانیوں کے ہیڈ کوارٹر میں تعیناتی ہوئی اور قادیانی خلیفہ مرزا مسرور احمد کے مقربین کی صف میں شامل رہے۔ یہ لندن کے قادیانی عبادت خانے کے امام بھی رہ چکے ہیں لیکن کچھ نو مسلم قادیانیوں کے اعتراضات کی تحقیق شروع کرنا تھی کہ جادۂ مستقیم پر چل پڑے اور حق کو پالیا۔ ذیل میں عکرمہ نجمی کا قادیانی مذہب چھوڑنے کا اعلان اور اپنے خالہ زاد بھائی حسن عَودہ کے نام کھلا خط ہے جن کا ۳۰ سال قبل قادیانیت چھوڑنے کے باعث بائیکاٹ اور کردار کشی کی جاتی رہی۔ ان دو تحریروں کا اردو ترجمہ نذر قارئین ہے۔ ‘‘
 بسم اﷲ الرحمن الرحیم
احمدیت (مرزائیت) سے براء ت کا اعلان
میں دنیا بھر میں اپنے سبھی احمدی دوستوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ، احمدیت (قادیانیت) کے بانی (مرزا غلام احمد) کے بارے میں مجھ پر یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ وہ ایک جھوٹا اور بد اخلاق انسان تھا، اور اسکی جماعت (قادیانیت) اس کے بعد مسلسل جھوٹ، گمراہی اور کھوٹے پیمانہ پر قائم ہے۔
ہرآدمی کے لیے یقینا یہ بات باعث صدمہ ہوگی کہ وہ (بحث وتحقیق کے بعد) اس طرح کے نتیجہ پر پہنچے، لیکن اسکے سوا کوئی چارہ بھی نہیں کہ ہم اب اپنی اگلی نسل کو شھادۃ الزور کی بنیاد پر خیانت اور گمراہی کے راستہ میں چھوڑ کر انہیں مزید مصیبتوں کے دلدل میں دھکیل دیں۔
احمدیت (قادیانیت) کے ساتھ میرا گزرا ہوا یہ زمانہ جو ولادت سے لے کر اب تک تقریبا نصف صدی پر مشتمل تھا، اس کے آخری ایام میں، مَیں عالم عرب کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ (قادیانیت) کا مرکزی ذمہ دار تھا، اور نئے مبایعین کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی، اور اسی طرح کچھ دوسری ذمہ داریاں بھی میرے سپرد تھیں، اور اس سے پہلے عربی چینل کے ڈائریکٹر کی نیابت اور دوسرے فرائض بھی انجام دے رہا تھا۔
میں پیدائشی احمدی (قادیانی) ہوں، اور میرے نانا کبابیر (فلسطین) میں عودہ خاندان کے سب سے پہلے قادیانی تھے، جو تقریبا 90 سال قبل قادیانی ہوئے، میں نے جب ہوش سنبھالا، اور دین کی طرف متوجہ ہوا، تو میں نے اس جماعت کی تعلیمات کو بغور پڑھا اور دل وجان سے ان تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور کبابیر میں کافی عرصہ اس جماعت کا مرکزی رکن رہا، پھر جب 2007م میں لندن منتقل ہوا تو لندن مرکز میں تقریبا ایک سال کام کرتا رہا اور میں مرزائی خلیفہ کے بہت مقربین میں سے تھا اور انکی مسجد (عبادت گاہ) کا مؤذن بھی رہا اور نائب امام کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔
بلا شبہ آپ اس وقت انتہائی کٹھن صورتحال سے گزر رہے ہوتے ہیں جب آپ کسی جماعت کے آغوش میں آنکھیں کھولیں اور پھر اسکی خدمت میں دل وجان ایک کردیں اور اس کام سے عشق کی حد تک لگاؤ ہوجائے اور اس کی خدمت کی خاطر آپ اپنی پوری زندگی صرف کردیں، اس گمان میں کہ یہ کام اﷲ اور حق مبین کے لیے ہورہا ہے، لیکن پینتالیس سال گزارنے کے بعد آپ کو یہ اندازہ ہو کہ یہ جماعت پہلے دن سے ہی جھوٹ وفریب کی بنیاد پر قائم تھی اور یہ جماعت نہ اسلام کے لیے کوئی خدمات سر انجام دے رہی ہے، نہ انسانیت کی ترقی کے لیے، بلکہ یہ صرف اپنی ذات اور جماعت کی مصلحت کے لیے اپنی قوت صرف کر رہی ہے۔
بہر حال میں اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ جس نے غیر جانبدارانہ بحث وتحقیق کے بعدمحض اپنے فضل وکرم سے مجھے اس جماعت سے نکلنے میں میری مدد فرمائی اور اب میں یقین کے اس مرحلہ پر پہونچ چکا ہوں کہ اب میں اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ میں اپنی گواہی اور اس جماعت کے ساتھ گزارا ہوا اپنا تجربہ لوگوں سے شیئر کروں، شاید اﷲ تبارک وتعالیٰ ان قابل قدر اور مخلصین لوگوں کو احمدیت سے نجات حاصل کرنے میں مدد فرمائیں جو اس جماعت کی اصلیت سے ناواقف اور بے خبر ہیں، یا ان کے اندر اس جماعت کی حقیقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت نھیں، یا وہ لوگ جو اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔
میں کافی عرصہ سے اس بات کو نوٹ کررہا تھا کہ یہ جماعت ہانی طاہر صاحب (فلسطین) کی باتوں کا حقیقت پسندانہ جواب نہیں دے پارہی، چنانچہ مرزائی خلیفہ نے ایک دن اس بارے میں میری رائے لی، تو میں نے کہا: در حقیقت انکی باتوں کا داندانِ شکن جواب نہیں دیا جارہا، تو خلیفہ نے کہا کہ آپ بحث وتحقیق کریں اور ان کا جواب دیں، چنانچہ میں نے بحث وتحقیق کرنے کا تہیہ کرلیا، مگر پھر ندامت ہوئی اور بحث وتحقیق کا اردہ ترک کرنا چاہا، مجھ پر اس بات کا خوف وقلق طاری تھا کہ اگر واقعی تمہاری جماعت جھوٹی ثابت ہوگئی، تو تم کیا کروگے؟ اور اگلی زندگی کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ اور ان دوستوں کا کیا ہوگا جنھیں تم نے اس جماعت کا حصہ بنایا تھا؟ اور اپنے اہل خانہ واقارب اور بچوں کا سامنا کیسے کرو گے؟انھیں یہ سب حقائق کیسے بتاؤ گے؟ اور ان کا رد عمل کیا ہوگا؟ اور ان پر اسکے کیسے نفسیاتی اثرات مرتب ہونگے؟
اسکے بعد دعاء کا سلسلہ شروع ہوا اور میں نے اپنے رب سے یہ معاہدہ کرلیا کہ میں صرف حق وسچ کا ساتھ دونگا، اور حق کو تھام لوں گا چاہے مجھے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، کیوں کہ آخر میں مجھے اﷲ تعالیٰ کی رضا ہی مطلوب ہے، چنانچہ اس دوران میں بہ کثرت اس دعاء کا ورد کرنے لگا: (اللّٰھُمَّ أَرِنَا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ). (ترجمہ: اے اﷲ ہمیں حق کو حق سمجھنے، اور اسے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما)
اسکے بعد بحث وتحقیق اور دردناک قصوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا، اس دوران میں ہمیشہ کرب کی صورتحال سے گزرا، کیوں کہ مجھے میرے مَن کی بات کہیں بھی نہ ملی، مجھے اس بات کا غم کھائے جارہا تھا کہ میں عصر حاضر کے سب بڑے دھوکے کا حصہ بنا رہا۔
مثلا مرزا قادیانی کی عربیت کے بارے میں سب سے بڑا جھوٹ بولا گیا تھا، حالانکہ اسکی عربی کے اکثر الفاظ اور خوبصورت تعبیرات ’’حریری‘‘ و ’’ہمذانی‘‘ کے مقامات سے چرائے گئے تھے۔ مثلاً مقامات کے تحقیقی مطالعے کے دوران میں نے مقامات حریری کے اولین ۴۰ صفحات میں تقریباً ۱۰۰۰ ایسے جملوں کی نشاندہی کی جو مرزا صاحب کی متعدد کتابوں میں چرا کر سجائے گئے تھے۔
اس درد ناک راستے کے مختلف موڑوں سے گذرنے کے بعد امانت کی ادائیگی کا مرحلہ آیا اور اپنے نتائج تحقیق احمدیت کے سب سے بڑے آدمی یعنی خلیفۂ وقت کے سامنے پیش کرنے کا مرحلہ در پیش ہوا۔ چنانچہ میں نے ایک تفصیلی خط تحریر کیا اور ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔وہ ایک مشکل ملاقات تھی، میرے احساسات کی دنیا میں طوفان برپا تھا اور درد کے مارے میرا دل نُچڑا جاتا تھا۔ خیر میں نے خط ان کے حوالہ کردیا، جس کا مضمون یہ تھا:
قابل ستائش وقابل احترام، بعد از سلام
میں خدا کو حاضر وناظر جان کر یہ گواہی دے رہا ہوں، کہ میں کبھی بھی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ میں اس تکلیف دہ مقام پر کھڑا ہوں گا۔ لیکن میں اس وقت جس صدمے میں مبتلا ہوں اس کی ہولناکی نے میرے دل کو درد سے بھر دیا ہے اور اس کا براہ راست اثر میری صحت پر بھی بری طرح ظاہر ہو رہا ہے۔
آپ کے ساتھ میں نے زندگی کے بہت خوبصورت اور کٹھن ایام گزارے، میرا یہ خواب تھا کہ اس جماعت کے ذریعہ اسلام کی خدمت کروں،میں اس جماعت کے ساتھ اتنا خوش تھا کہ اس کی خدمت کے لیے ہمہ تن گوش رہتا تھا اور اس پر من تن اور دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہتا تھا، میرا گمان تھا کہ میں اﷲ کی راہ میں یہ خدمات سر انجام دے رہا ہوں، اسی بناء پر ہم احمدیوں کی بہت سی غلطیوں سے صرف نظر کرتے رہے اور ان سے اچھا گمان بر قرار رکھتے رہے، اور یہ سب جماعت کے بانی اور ان کے خلیفہ سے ہماری محبت کی بنیاد پر تھا۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان حقائق سے صرف نظر کرتے رہیں جو پچھلے چند ماہ میں ہماری نظر سے گزرتے رہے، لیکن کب تک؟ کس میں یہ طاقت ہے کہ جانتے بوجھتے اﷲ کی نعمت کو چھوڑ کر اپنی عقل کے بر خلاف چلتا رہے؟ انسان کب تک اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتا ہے؟
ہانی طاہر صاحب کی باتوں کے جوابات حقیقت پسندی سے بالکل عاری، بلکہ ذاتیات اور سب وشتم سے لبریز تھے، اسی طرح ان میں نرمی اور محبت نام کے کسی جذبے کا کچھ اثر نہ تھا، جس سے ہماری جماعت کا تکبّر اور جابرانہ چہرہ ہی ظہور پذیر ہوا، اور یہ کہ یہ جماعت لوگوں کی سوچنے کی صلاحیت پر قدغن لگاتی ہے۔ حالانکہ ہانی طاہر صاحب اخوت ومودت، سوچ وفکر اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کی دعوت دیتے رہے اور انہو ں نے اب تک اپنا یہ طرز جاری رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ بعض لوگوں نے انہیں گالی گلوچ کی پستیوں کی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی، جو انہو ں نے ناکام بنادی، انہو ں نے صرف اتنا ہی تو کیا تھا کہ بانی ٔ جماعت کی عبارتیں پیش کرتے رہے۔
جس بات پر مجھے سب سے زیادہ تکلیف ہوئی وہ یہ تھی کہ جماعت اپنے مؤسس کے دفاع میں یک جان نہ ہوسکی اور ان لوگوں پر یہ کام چھوڑ دیا جو ذاتی بغض اور نفرت میں مبتلا تھے اور ان کی جانب سے ہانی طاہر صاحب کی باتوں کا تحقیقی اور اساسی جواب بن نہ پایا۔جماعت کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چند اشخاص کو ذاتی حیثیت میں جماعت کا نمائندہ سمجھ لیا گیا ہو۔کیا وجہ ہے کہ جماعت کی جانب سے آفیشل طور پر ہانی طاہر کے اعتراضات کا جواب نہیں دیا گیا، بلکہ جماعت تو ایک طرف جماعت کے عرب ونگ کی جانب سے بھی کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
کیا ’’اہلِ حق‘‘ کی جماعت اپنے ارکان کو مخالفین کی بات سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے سے منع کر سکتی ہے؟ یا کسی سچے گروہ کو اپنے مخالفین کے شبہات سے متأثر ہونے کا خوف ہو سکتا ہے؟ حق اتنا ضعیف کب سے ہو گیا ؟؟
ہم علماء و مشائخ پر کتنی تنقید کیا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو ہمارا چینل دیکھنے سے منع کرتے ہیں، ہم نے کتنی ہی بار اس آیت سے استدلال کیا جس میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ کامیاب لوگ جو بات سنتے ہیں اس میں سے بہترین کی پیروی کر لیتے ہیں۔ اور اب جو کچھ جماعت میں ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ اکابرینِ جماعت احمدیہ لوگوں کو سختی سے منع کر رہے ہیں کہ کسی مخالف کی بات یا رائے کو ہر گز توجّہ سے نہ سنیں، اور اس حکم کو آپ کی طرف بھی منسوب کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک جماعت پر وارد ہونے والے اعتراضات کا تعلق ہے تو جب ہانی طاہر نے کہا کہ اگر سن 1906ء میں یہ جماعت چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، تو سن 1944ء میں بھی اسکی تعداد صرف چار لاکھ کیسے ہو سکتی ہے؟ حالانکہ خلیفہ صاحب کہتے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانے کے بعد جماعت کے ارکان میں کئی سو گنا اضافہ ہوا؟ تو اس کے جواب میں اہلِ جماعت کی طرف سے یہ طرزِ عمل اپنایا گیا کہ اپنے مدّعا کو بار بار دہرایا جانے لگا، یہ کس قسم کا جواب ہوا؟
جب ہانی نے بانیٔ سلسلہ کی کتابوں سے سیکڑوں نحوی اور گرامر کی غلطیوں کا ذکر کیا تو اہلِ جماعت نے کسی ایک مضمون میں بھی اس اعتراض کا کوئی قابلِ قبول جواب نہیں دیا۔ حد تو یہ ہے کہ جماعت میں موجود کسی عربی دان سے جو نحو اور گرامر پر عبور رکھتا ہو یہ مطالبہ تک نہیں کیا گیا کہ وہ اس اعتراض کا جواب دے!! حالانکہ ہانی بار بار چیلنج کر رہے تھے۔
اسی طرح جب انھوں نے دسیوں مضامین میں نشان دہی کی کہ بانی ٔ سلسلہ نے کیسے مقامات ِ حریری سے سرقہ کیا تو جماعت کی جانب سے متضاد اور متناقض قسم کے ادھورے جوابات کے ذریعے ٹرخانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی کہا گیا کہ بانی ٔ سلسلہ نے ہرگز کبھی ’’مقامات حریری‘‘ پڑھی تک نہ تھی، کبھی کہا گیا کہ بانی سلسلہ نے حریری کے اسلوب سے بس تأثر قبول کیا ، اور کبھی کہا گیا کہ مرزا صاحب نے جان بوجھ کر اس کتاب سے اقتباس لیے تاکہ لوگوں کی توجّہ کتاب کی طرف مبذول کروائی جا سکے۔
لیکن جواب دینے کی ان سب پر جوش مگر ناکام کوششوں کے با وجود جماعت کی طرف سے مقامات حریری اور بانی ٔ جماعت کی عبارات میں بے تحاشا اور شدید مماثلت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا گیا۔ مثلاً مقامات حریری کے اوّلین تیس صفحات میں سے بانی ٔ سلسلہ نے ۵۰۰ سے زائد جملے لے کر اپنی کتابوں میں بکھیر رکھے ہیں۔اور اس کی کوئی توجیہ یا تاویل نہیں کی جاسکتی سوائے یہ کہ مان لیا جائے کہ مرزا صاحب نے واقعتا یہ جملے مقامات سے اٹھائے ہیں اور وہ نقل کیے بغیر مضبوط عبارت لکھنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ مگر یہ تسلیم کرنے سے اس عقیدے کا کیا ہو گا جس کے مطابق مرزا صاحب کو اﷲ نے عربی زبان کے ۴۰ ہزار کلمات الہام فرمائے تھے ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ اچھی عبارت لکھنے کے لیے حریری پر اعتماد کیوں کرتے؟
اسی طرح جب ہانی طاہر نے اس جعل سازی کا تذکرہ کیا جو مرزا صاحب کی تحریرات میں قرآن، حدیث، مفسرین اور اولیاء کی کتابوں کے جھوٹے حوالوں کی شکل میں پائی جاتی ہے، تو جماعت کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔حالانکہ ہانی صاحب نے ۲۰ سے زائد ایسے جھوٹے حوالوں کا ثبوت بہم پہنچایا تھا جو بانیٔ سلسلہ کی تحریروں میں لائے گئے تھے اور اصل مصادر میں ان کا کوئی سراغ نہ تھا۔ بالکل یہی صورت حال مرزا صاحب کے ان جھوٹے حوالوں کا ہے جو انھوں نے اپنی ہی دوسری کتابوں کے دیے ہیں مگر ان کتابوں میں محوّلہ عبارتوں کا کچھ نام نشان نہیں ہے۔
اسی طرح جس وقت ہانی طاہر صاحب نے مرزا صاحب کی جانب سے بطور معجزہ پیش کی گئی کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘ کا رد لکھا، اس کے معجزہ ہونے کے بطلان کو ثابت کیا اور فیصلہ کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا تو اس پر کسی ایک احمدی کی جانب سے کسی قسم کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا پس ان کے اس رد کو مسترد نہ کیا جا سکا۔
وہ صدمہ جو بانیٔ سلسلہ کی بد اخلاقی اور گالم گلوچ کا علم ہونے کے بعد مجھے پہنچا وہ بہت بڑا تھا۔ مرزا صاحب کی یہ عبارتیں ہم ہر گز قبول نہیں کر سکتے کہ ہمارے بچوں کے کان میں کبھی پڑیں، یا ہم دنیا میں سر اٹھا کر کسی کو دکھا سکیں۔ میں بہت بے آرام ہوا جب میں نے دیکھا کہ مرزا صاحب نے اپنی ایک کتاب میں پے در پے ایک ہزار لعنتیں درج کی ہیں۔ اسی طرح ایک پہلے سے شادی شدہ عورت سے شادی پر اصرار کرنا اور لوگوں کے سامنے بار بار اس بارے میں اعلان مشتہر کرنا۔ یہ سب باتیں ہمارے ہاں جُرم اور باعث عار سمجھی جاتی ہیں اور کوئی شخص اس طرح کی باتوں کو قابلِ قبول نہیں سمجھتا۔
اسی طرح بانیٔ سلسلہ کی عبارات میں خود مذاہب کی تحقیر کا عنصر بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیت اور اس کے عقائد کو ناپاک کہنا۔ جیسا کہ عبد اﷲ آتھم کے بارے میں کہا:’’ وہ اپنے ناپاک نصرانی عقائد کے دفاع میں کتابیں لکھنے سے اچانک باز آگیا حالانکہ یہ اس کا مشغلہ تھا‘‘۔ اور یہ کہنا کہ: ’’عیسائی مذہب جھوٹ بولنے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، پس یہ وہ لوگ ہیں جو الوہی کتابوں میں خیانت سے باز نہیں آئے انھوں نے سیکڑوں جھوٹی کتابیں گھڑ لیں‘‘۔ یا دینِ مسیحی کے بارے میں یہ کہنا: ’’یہ ایسا دین ہے جس سے انسان کو متلی آجاتی ہے‘‘۔
جہاں تک بانیٔ سلسلہ کی غیبی پیش گوئیوں کا تعلق ہے، تو یہ بات بہرحال واضح ہے کہ وہ سچ ثابت نہیں ہوئیں، بلکہ ان کے بالکل بر عکس معاملہ بھی پیش آتا رہا، اور جماعت کی جانب سے ان کے پورا نہ ہونے کی جو تاویلات گھڑی جاتی ہیں وہ افسوسناک حد تک غلط اور مغالطہ آمیز ہیں۔ بلکہ اہلِ جماعت کو تو کبھی ان پیشین گوئیوں سے متعلق جھوٹی عبارتیں بھی گھڑنی پڑیں ، جیسا کہ ثناء اﷲ امرتسری کے مرزا صاحب کے بعد بھی زندہ رہنے والے معاملے میں اہلِ جماعت کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے نے اکتوبر 1907ء میں ایک اشتہار میں لکھا تھا کہ: ہم میں سے جھوٹا شخص سچے کی موت کے بعد زندہ رہیگا، حالانکہ ہمیں اس عبارت کا کوئی نام و نشان مجموعۂ اشتہارات میں نظر نہیں آیا۔
میری خواہش اور چاہت یہ ہے کہ آپ کے اور جماعت کے ساتھ ہمارے تعلقات عمدگی کے ساتھ قائم رہیں، لیکن مجھے آپ کو یہ اطلا ع دیتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ میں اب بانیٔ سلسلہ کو اپنے دعووں میں سچا نہیں مانتا، البتہ میرے اہلِ خانہ اپنا فیصلہ خود کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اگر وہ جماعت کے ساتھ اپنے تعلق کو برقرار رکھنا چاہیں تو میں ان کو نہیں روکوں گا، بلکہ مجھے تو جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگر آپ ایسے شخص کو اپنے درمیان برداشت کر سکتے ہیں جو بانیٔ سلسلہ کو مسیح و مہدی تسلیم نہ کرتا ہو، اور اس کا ارادہ ہو کہ اپنے ساتھیوں کی مدد کرے اور ان کو اس مشکل سے نجات دلائے، اگر ایسا نہیں تو آپ بے شک مجھے کام سے ہٹا دیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ہمارے ذاتی تعلقات خوشگوار رہیں۔
میرے محترم! میں آپ کے بارے میں بہت نیک گمان رکھتا ہوں، میرا ماننا ہے کہ آپ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے پاس احمدیت کے اس مسئلے کا بنیادی حل موجود ہے، آپ چاہیں تو موجودہ احمدیوں اور ان کی اگلی نسل کو اس دلدل سے نکال سکتے ہیں، اور اﷲ تعالیٰ کی بے پناہ رضا کو حاصل کر سکتے ہیں۔اور ایسا تب ہوگا جب آپ ایک طویل منصوبہ تشکیل دے کر کہ جماعت کا منشور تبدیل کرکے کوئی فلاحی تنظیم یا اسی طرز پر خیر پھیلانے اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کا کوئی نیا پروگرام پیش کریں۔ میں اس نئے پروگرام میں جب تک جماعت اس بحران سے نکل نہ آئے آپ کا بھر پور تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں، چاہے اس کام میں جتنا وقت لگ جائے۔
میں یہ جانتا ہوں کہ لوگوں کو یک دم اس جماعت کی حقیقت بتانا بہت مشکل ہے، بلکہ اس کے منفی اثرات شاید زیادہ ہوں، لیکن ان حقائق سے پردہ پوشی کرلینا زیادہ بڑا جرم ہوگا، اگر واقعی آپ اس مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین جانیے تاریخ آپ کو ان سنہرے الفاظ میں یاد کرے گی جن میں پہلے کسی کو یاد نہیں کیا گیا ہو گا اور آپ کو اﷲ تعالیٰ اور لوگوں کے ہاں سے بہترین بدلہ ملے گا۔ میں آخری دم تک آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں اگر آپ میری تجویز کو قابلِ عمل سمجھیں۔ اور اﷲ ہی میرا مقصود ہے! فقط
خط میں نے ان کے سپرد کیا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ نے اس میں کیا لکھا ہے؟ میں نے جواب دیا: آپ کے اس کو پڑھنے سے پہلے میرے لیے اس پر بات کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن معاملہ بہت ہولناک ہے اور میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری پوری زندگی اس طرح ایک کابوس میں بدل جائے گی۔ انہوں نے کہا:کیا بات ہے؟ کہیں تم جماعت کو چھوڑنا تو نہیں چاہتے؟ میں نے کہا: میری درخواست ہے کہ آپ کے اس خط کے مشمولات سے واقف ہونے تک ہم گفتگو کو مؤخر کر دیں۔ تو انہوں نے کہا:ٹھیک ہے مجھے ایک دو دن کا ٹائم دو، میں پڑھ لیتا ہوں اور پھر ہم دوبارہ ملاقات کریں گے۔ مگر تقریبا چالیس منٹ بعد میرا چوکیدار گھبرایا ہوا آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ حضور (یعنی مرزا مسرور) نے آپ کو ابھی اور اسی وقت طلب کیا ہے، چنانچہ میں دوبارہ حاضر ہوا، تو انھوں نے مجھ سے کہا: کہ آپ نے بانی ٔ سلسلہ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ غیر منطقی اور ناقا بلِ قبول ہے۔ مجھ سے گفتگو کے دوران ان کی باڈی لینگویج پژمردہ تھی حتی کہ ان کے دونوں ہاتھ کانپ رہے تھے، وہ لرزتے ہوئے بات کر رہے تھے اور ان کی آواز ٹوٹ رہی تھی۔ انھوں نے کہا: میں نے آپ کا پورا خط پڑھ لیا ہے اور میں آپ کو آپ کی ملازمت اور جماعت سے بالکلیہ اخراج کرنے پر مجبور ہوں۔
اس طرح انھوں نے موضوعِ زیرِ بحث پر گفتگو کے امکانات کا خاتمہ کر دیا بجائے اس کے کہ وہ میرے ساتھ بحث کرتے یا ایسی ناقابلِ انکار دلیلیں لے کر آتے جو ان کے عملی اور روحانی تجربات پر مشتمل ہوتیں، یا کوئی ایسا معجزہ دکھاتے جس طرح کے ان کی دعاؤں کی قبولیت کے قصے مشہور ہیں اور جو مجھے کبھی نظر نہیں آئے۔ جی ہاں بجائے اس کے کہ وہ بانیٔ سلسلہ کی سچائی پر اپنے یقین کی مثال پیش کرتے انھوں نے مجھے سے کہا کہ میں آپ کو آپ کی ملازمت اور جماعت سے بالکلیہ اخراج کرنے پر مجبور ہوں۔
اس مرحلے پر کچھ اور بھی اہم تفصیلات ہیں جو میں ان شاء اﷲ بعد میں ذکر کروں گا۔ لیکن یہاں ایک بات کا تذکرہ ضروری ہے میں نے اس ملاقات کے آخر میں خلیفہ صاحب سے کہاکہ: آپ کو اﷲ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ انہوں نے کہا: غالباً میں بھی وہی کرتا جو تم نے کیا!
اسی لمحے کے بعد میرے ساتھ گالی گلوچ، کردار کُشی کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا جو ہر اس شخص کو ہزار دفعہ سوچنے پر مجبور کردے جو احمدیت سے توبہ کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں لانا چاہے، یا وہ کرے جو میں نے کیا، یا حقیقت پسندی سے احمدیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرے اور آزادی کے ساتھ وہ سانس لینے کی کوشش کرے جو میں نے لیے۔ ان تفصیلات کے بارے میں عنقریب میں ان شاء اﷲ بات کروں گا۔
آخر میں میری دعا ء ہے کہ اﷲ تعالیٰ احمدیوں کو حق وسچ قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور انھیں اپنے خاندان اپنے بچوں، اور عزیز واقارب کو حق وسچ بتانے کی ہمت عطاء فرمائے، خواہ یہ سب بتدریج اور مرحلہ وار ہی کیوں نہ ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جھوٹ ومنکرات نشر کرنے سے باز آجائیں، بلکہ ان پر یہ لازم ہے کہ حقیقت کی تلاش اورسچ کو پڑھنے اور سمجھنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں، اور ہر بات کو باریک بینی اور مستند ذرائع سے جانچنا شروع کریں۔ اور جس بات کا جوا ب دیا جائے وہ باقاعدہ طریقے سے اور ماہرینِ فن کے ذریعے سے دیا جائے۔ خاص طور پر عربی زبان کی اہلیت اور استعداد کے حوالے سے بھی، جس میں مرزا صاحب کے ہلکے پن کے بارے میں سب لوگ جان چکے ہیں۔
میرا دل سب احمدیوں کے لیے کھلا رہے گا، اس امید کے ساتھ کہ وہ میرا بائیکاٹ کرنے کے جماعتی فیصلے کی پابندی نہیں کریں گے، نہ کسی دوسرے غیر اخلاقی حکم کی بجا آوری کریں، نہ جھوٹے پروپیگنڈے پر کان دھریں گے، اور نہ دونوں طرف کی بات سنے بغیر اپنی طرف سے فیصلہ صادر کریں گے۔ اس لیے کہ دشمنی اور نفرت سے صرف سازشی فطرت کے لوگوں کی ہی خوشی ہوتی ہے کیونکہ ان کی گزر بسر کا مدار اسی پر ہوتا ہے۔
اپنے رب کی رحمت و مغفرت کا محتاج
عکرمہ نجمی
۱۲ جولائی ۲۰۱۸ء

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.