تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

متلاشیانِ حق کو دعوت فکرو عمل

مکتوب نمبر: ۱۱

ڈاکٹر محمد آصف

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
میرے پیارے احمدی دوست!
اﷲ پاک نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع کیا، جنھوں نے اپنی اپنی قوم تک اﷲ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ اس فرض منصبی کی ادائیگی میں ذرا برابر فرق نہ آنے دیا۔ انبیاء علیہم السلام پر الزامات لگائے گئے اور نہایت گندی زبانیں استعمال کی گئیں لیکن چونکہ انبیاء کرام علیہم السلام تہذیب و اخلاق سے موصوف، صبر و تحمل کے پہاڑ اور عفو و درگزر کی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی قوم کو نرم خوئی اور شیریں زبانی کے ذریعہ راہ راست پر لائے اور ان کی تربیت کر کے انھیں بھی اعلیٰ اخلاق کا حامل بنایا۔
قرآن مجید میں اﷲ پاک کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی اور تو برائی کا جواب نہایت سلوک سے دے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ شخص کہ اس کے اور تیرے درمیان عداوت پائی جاتی ہے، وہ تیرے حسن سلوک کو دیکھ کر ایک گرم جوش دوست بن جائے گا۔
(سورۃ حٰم السجدہ، آیت: ۳۵، ترجمہ: تفسیر صغیر مرزا بشیر الدین محمود)
ساتھ ہی اگلی آیت میں اﷲ پاک نے یہ بھی بتا دیا کہ یہ توفیق کن لوگوں کو ملتی ہے۔
ترجمہ: اور (باوجود ظلموں کے سہنے کے) اس (قسم کے سلوک) کی توفیق صرف انھی کو ملتی ہے جو بڑے صبر کرنے والے ہیں اور یا پھر ان کو ملتی ہے جن کو (خدا کی طرف سے نیکی کا) ایک بڑا حصہ ملا ہو۔
(سورہ حٰم السجدہ، آیت: ۳۶، ترجمہ: تفسیر مرز بشیر الدین محمود)
سچے مامور من اﷲ اور جھوٹے کے درمیان یہ ایک بڑا فرق ہے کہ جھوٹا مدعی سخت کلامی اور مخالفت پر برداشت کا دامن چھوڑ کر انتقام کے درپے ہو جاتا ہے اور جواب دینے میں اُسی طرح کی گندی زبان استعمال کرنے لگتا ہے لیکن سچے مامور من اﷲ کبھی سخت کلامی کے مقابلے میں بھی سخت زبان استعمال نہ فرماتے تھے۔ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا صرف اسلام کے نزدیک ہی برا نہیں بلکہ دنیا کا ہر مذہب بلکہ لا مذہب لوگ بھی گالیاں دینے اور بدزبانی کرنے کو برا جانتے ہیں۔
مرزا صاحب اپنی کتابوں میں بدزبانی کی مذمت کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے‘‘۔ (روحانی خزائن، جلد: ۱۷، ص: ۴۷۱)
’’کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو‘‘۔ (روحانی خزائن، ج: ۱۹، ص: ۱۱)
تمام انبیاء کرام کا طریق اور خاص طور پر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ کہ جس کی غلامی کا مرزا صاحب کا دعویٰ کرتے ہیں مرزا صاحب کے اپنے چند اقوال بدزبانی کی مذمت میں بھی ہیں ان سب کے بر خلاف مرزا صاحب کا اپنا عمل کیا رہا ہے؟ مخالفین کی طرف سے گالیاں اور بدزبانی سن کر کتنے بے بس ہو جاتے تھے کہ اسی انداز اور الفاظ میں گالیاں اور بدزبانی شروع کر دیتے تھے۔ مرزا صاحب کی زندگی میں بھی ان پر یہ اعتراض کیا گیا تو انھوں نے اس کے جواب میں اپنی ایک کتاب میں لکھا بلکہ اعتراف کیا کہ ’’میرے سخت الفاظ جواب کے طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے‘‘۔
آیے ہم مرزا صاحب کی تحریرات کا مختصراً جائزہ لیں کہ وہ کہاں تک اپنے بیان کیے ہوئے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ مرزا صاحب اپنی تصنیف کردہ کتابوں ’’براہین احمدیہ، ازالہ اوہام، فتح الاسلام اور دافع الوساوس‘‘ وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ترجمہ: ان کتابوں کو ہر مسلمان پیار اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے نفع حاصل کرتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میری تصدیق کرتا ہے، مگر بدکار اور بازاری عورتوں کی اولاد جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا دی ہے۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن، جلد: ۵، ص: ۵۴۷ تا ۵۴۸)
احمدی دوست عام طور پر مرزا صاحب کی اس تحریر کے بارے میں کہتے ہیں کہ مولویوں نے لفظ البغایا کا ترجمہ بدکار یا بازاری عورتیں غلط کیا ہے اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اس لفظ کا یہ ترجمہ نہیں تو بجائے اس کے کہ ہم اپنی طرف سے کچھ کہیں کیوں نہ خود مرزا صاحب سے ہی پوچھ لیا جائے کہ اس لفظ کا کیا ترجمہ ہے؟
مرزا صاحب نے اپنی کتاب (نور الحق روحانی خزائن، جلد: ۸، ص: ۱۶۳) پر یہی لفظ ذریۃ البغایا لکھا ہے اور اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ خراب عورتوں کی نسل۔
اپنی کتاب (بحۃ النور) میں مختلف مقامات پر لفظ البغایا لکھا ہے اور ایک جگہ اس کا ترجمہ فارسی میں کیا ہے زنہائے زانیہ یعنی زانی عورتیں۔ (روحانی خزائن، جلد: ۱۶، ص: ۳۷۱)
ایک دوسری جگہ اس کا ترجمہ کیا ہے زنان فاسقہ یعنی فاسق عورتیں (روحانی خزائن، جلد: ۱۶، ص: ۴۲۶) اور اسی کتاب میں ایک جگہ البغایا کا واحد البغی لکھا ہے اور اس کا ترجمہ کیا ہے۔ زن فاحشہ یعنی فاحشہ عورت
(روحانی خزائن، جلد: ۱۶، ص: ۴۲۸)
ایک جگہ مرزا صاحب نے اپنے مخا لفین کے بارے میں لکھا:
دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
(نجم الہدی روحانی خزائن، جلد: ۱۴، ص: ۵۳)
ایک جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’اے بدذات فرقہ مولویاں تم کب تک حق کو چھپاؤ گے۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت چھوڑ دو گے‘‘۔
’’اے ظالم مولویو! تم پر افسوس تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو پلایا‘‘۔
(انجام آتھم روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۲۱)
ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں‘‘۔
’’ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سوروں کی طرح کر دیں گے‘‘۔
(انجام آتھم روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۳۳۷)
’’اور اس کے جواب میں ہم کیا کہیں کہ اے بد ذات یہودی صفت پادریوں کا اس میں منہ کالا ہوا اور ساتھ ہی تیرا بھی اور پادریوں پر ایک آسمانی لعنت پڑی۔ اے خبیث کب تک تو جیے گا‘‘۔ (انجام آتھم روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۳۲۹)
’’مگر جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی مشرک رکھا گیا‘‘۔ (نزول المسیح روحانی خزائن، جلد: ۱۸، ص: ۳۸۲)
’’اور لئیموں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتا ہوں کہ ایک شیطان معلون ہے، سفیوں کا نطفہ۔ بدگو اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کا ملمع کر کے دکھلانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعد اﷲ رکھا ہے‘‘۔
(حقیقت الوحی روحانی خزائن، جلد: ۲۲، ص: ۴۴۵)
’’مگر یہ نابکار قوم حیا اور شرم کی طرف رخ نہیں کرتی‘‘۔ (ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۳۳۸)
’’اے عورتوں کی عار ثناء اﷲ‘‘۔ (اعجاز احمدی روحانی خزائن، جلد: ۱۹، ص: ۱۹۶)
’’اس جگہ فرعون سے مراد شیخ محمد حسین بٹالوی ہے اور ہامان سے مراد نو مسلم سعداﷲ ہے‘‘۔
(ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۳۴۰)
ترجمہ: ’’ان میں سے آخری شخص وہ اندھا شیطان اور بہت گمراہ دیو ہے جس کو رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں اور وہ امروہی کی طرح شقی اور ملعونوں میں سے ہے‘‘۔ (انجام آتھم روحانی خزائن، جلد ۱۱، ص: ۲۵۲)
’’پس اے بدذات دشمن اﷲ کے رسول کے‘‘۔ (ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن، جلد ۱۱، ص: ۳۳۴)
’’اے بد ذات فرقہ مولویاں‘‘۔ (انجام آتھم روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۲۱)
مرزا صاحب لکھتے ہیں : ’’مجھے ایک کتاب کذاب (پیر مہر علی شاہ گولڑوی) کی طرف سے پہنچی ہے وہ خبیث کتاب اور بچھو کی طرح نیش زن۔ پس میں نے کہا اے گولڑہ کی زمین تجھ پر لعنت تو ملعون کے سبب ملعون ہو گئی پس تو قیامت کو ہلاکت میں پڑے گی‘‘۔ (اعجاز احمدی روحانی خزائن، جلد: ۱۹، ص: ۱۸۸)
’’چنانچہ پلید دل مولوی اور بعض اخبار والے انھیں شیاطین میں سے تھے‘‘۔
(روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۲۸۸)
’’ایسا ہی ان بدبخت مولویوں نے علم تو پڑھا مگر عقل اب تک نزدیک نہیں آئی‘‘۔
(روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۲۹۵)
’’بعض جاہل سجادہ نشین اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ‘‘۔ (روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۳۰۲)
’’بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں دل کے مجذوم، دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر سے زیادہ پلید یہ لوگ ہیں۔ اے مردار خود مولویو اور گندی روحوتم پر افسوس، اے اندھیرے کے کیڑو‘‘۔ (روحانی خزائن، جلد: ۱۱، ص: ۳۰۵)
’’ذلیل ملاؤں، پلید ملاؤں، ناپاک طبع مولویوں، پلید طبع مولوی، خدا کا ان مولویوں پر غضب ہو گا‘‘۔
(روحانی خزائن، جلد: ۱۴، ص: ۴۱۳)
چند نمونے یہ ہیں:
’’اے مردار خور مولویو! اے بدذات، اے خبث، انسانوں سے بدتر اور پلید، بدبخت پلید دل، خبیث طبع، مردار خور، ذلیل، دنیا کے کتے، رئیس الدجالین، رئیس المعتدین، رئیس المتکبرین، سلطان المتکبرین، سفیہوں کا نطفہ، شیخ احمقاں، شیخ الضّال، شیخ چالباز، کمینہ، گندی روحو، منحوس، یہودی صفت، یہودی، اندھا شیطان، سربراہِ گمراہاں‘‘ اور اس طرح کی بے شمار ہیں۔
لیکن دوسری طرف مرزا صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
’’گالیاں دینا بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے‘‘۔ (اربعین نمبر ۴، روحانی خزائن، جلد: ۱۷، ص: ۴۷۱)
’’کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن، جلد: ۱۹، ص: ۱۱)
’’بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے جس دل میں یہ نجاست بیت الخلاء یہی ہے‘‘۔
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن، جلد: ۲۰، ص: ۴۵۸)
میرے محترم! اس معاملہ میں احمدی دوستوں کا اکثر جواب یہ ہوتا ہے کہ علماء نے پہلے گالیاں نکالی ہیں اگر مان بھی لیں تو علماء اور نبوت کے دعویدار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ علماء غلطی کر سکتے ہیں، مگر نبی نہیں۔ ایک شرارتی بچہ اگر تمھیں گالی نکالے یا پتھر مارے تو کیا تم بھی اس سے بڑھ کر گالی نکالو گے اور اس کے سر میں اینٹ مارو گے؟ یا پھر سوچو گے کہ وہ بچہ ہے میں بڑا ہوں، دگزر کروں یا کم از کم سمجھانے کے لیے احسن راستہ اختیار کروں؟ ایک عالم اور نبوت کے دعویدار کے درمیان بچے اور بالغ سے بھی زیادہ فرق ہوتا ہے۔ اس وقت کے علماء کرام جو بقول مرزا صاحب کہ وہ جاہل ہیں اور مرزا صاحب کا مقام نہیں پہچانتے لیکن کاش مرزا صاحب تو اپنا مقام پہچان جاتے اور جواباً اس طرح کے الفاظ استعمال نہ فرماتے۔
دوسرے مذہب والوں پر اعتراضات کی صرف ایک جھلک ملاحظہ فرمایں۔
مرزا صاحب آریوں کے خدا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’آریوں کا پرمیشر ناف سے دس انگلی نیچے ہوتا ہے سمجھنے والے سمجھ جائیں‘‘۔
(چشمہ معرفت روحانی خزائن، جلد: ۲۳، ص: ۱۱۴)
کیا یہ کوئی علمی اعتراض ہے؟
مرزا صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’لعنت بازی صدیقوں کا کام اور مومن لعان نہیں ہوتا‘‘۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۵۶)
لیکن مرزا صاحب نے یہ کیا لکھا ہے آپ خود اصل کتابوں سے دیکھ لیں۔
۱۔ روحانی خزائن، جلد: ۲، ص: ۳۸۷۔ ۳۸۶ شحنۂ حق۔ ۲۔ روحانی خزائن، جلد: ۲، ص: ۳۷۶ شحنۂ حق۔
۳۔ روحانی خزائن، جلد: ۸، ص: ۱۵۸ تا ۱۶۲، نور الحق حصہ اوّل۔
دیگر مذاہب کے پورے پورے قصے اس طرح لکھنا جس کو زبان بیان کرنے سے بھی شرماتی ہے۔
۴۔ روحانی خزائن، جلد: ۱۰، ص: ۳۰ تا ۳۵، آریہ دھرم۔
والسلام علی من التبع الہدیٰ
منجانب: آپ کا ایک خیر خواہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.