تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

منھاجِ نُبوّت اور مرزا قادیانی قسط: ۵

مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ

معیار نمبر ۹: نبی فصیح و بلیغ ہوتے ہیں:
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام فصیح و بلیغ ہوتے ہیں، حضرت شعیب علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت مشہور ہے، ان کا لقب خطیب الانبیاء ہے۔ امام الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت تو معجزانہ شان کی حامل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے انبیاء پر چھے باتوں میں فضیلت دی گئی ہے جن میں سے پہلی فضیلت یہ ہے کہ مجھے جامع کلمات دیے گئے ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب المساجد، رقم الحدیث: ۱۰۵۹)
جامع کلمات کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ کم ہوں اور ان کے معانی زیادہ ہوں، کتب حدیث اس فرمان نبوی کی صداقت پر شاہد عادل ہیں۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ ہے کہ مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کے نام و کمالات دیے گئے ہیں۔ اس کا مزید کہنا یہ ہے کہ ’’ میں قرآن شریف کے معجزے کے ظل پر عربی بلاغت و فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے …………اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیوں کہ جب میں عربی میں یا کوئی عبارت لکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔ ‘‘ (ضرورۃ الامام مندرجہ روحانی خزائن، جلد: ۱۳، ص: ۴۹۶)
تردید:
مرزا قادیانی نے عربی تحریرات میں بے شمار غلطیاں کی ہیں۔ یہاں پر چند اغلاط درج کی جاتی ہیں۔
(۱) کلام افصحت من لدن رب کریم۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن، جلد: ۲۲، ص: ۳۷۵)
کلام مذکر ہے مگر مرزا نے مؤنث استعمال کیا ہے۔
یہ لطیفہ ہے کہ مرزا صاحب کو جس وحی کے ذریعے فصاحت کلام کی خبر دی گئی وہ وحی بھی گرائمر کے اعتبار سے غلط ہے۔
(۲) و انی واللّٰہ آمن باللّٰہ و رسولہ و آمن بانہ خاتم النبیین۔
(حمامۃ البشری روحانی خزائن، جلد: ۷، ص: ۳۷۵)
در اصل لفظ أؤمِنُ ہے۔
(۳) فلا تظنن یا اخی ان قلت کلمۃ فیہ رائحۃ ادعاء النبوہ۔
(حمامۃ البشری روحانی خزائن، جلد: ۷، ص: ۲۷۷)
اس جملہ میں کلمۃ مؤنث ہے مگر اس کی طرف ضمیر مذکر کی لوٹائی گئی ہے۔
(۴) و سالت عنی دلیلاً علیہ ۔ (نور الحق روحانی خزائن، جلد: ۸، ص: ۷۷)
عبارت یوں ہونی چاہیے تھی سالتنی عن دلیل علیہ۔
(۵) فاسالوا عنہ سر ہذا التخصیص۔ (نور الحق روحانی خزائن، جلد: ۸، ص: ۱۱۴)
عبارت یوں ہونی چاہیے تھی فاسالوہ عن سر۔
(۶) سبقاء کوالجہا ۔(نور الحق روحانی خزائن، جلد: ۸، ص: ۱۴۸)
مرزا قادیانی نے کالج کی جمع کوالج بنائی اور اسے عربی جملہ میں استعمال کر لیا حالانکہ کالج انگلش کا لفظ ہے۔
(۷) سالتھا من رب الارض والسماء۔ (آئینہ کمالات اسلام، ص: ۸،روحانی خزائن، جلد: ۵)
اصل جملہ ہے سالت رب الارض والسماء عنہا۔
(۸) رب ارحم علی الذین یلعنون علیّ …… وارحم علیہم۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن، جلد: ۵، ص: ۲۲۔ ۲۳)
عربی میں رحم کا صلہ علیٰ استعمال کرنا غلط ہے۔
(۹) ما الفرق فی آدم والمسیح الموعود ۔ (ملحقہ خطبہ الہامیہ)
اصل میں جملہ یوں ہونا چاہیے تھا ما الفرق بین آدم و المسیح الموعود۔
روحانی خزائن میں قادیانیوں نے اپنی نبی کی غلطی درست کر دی ہے۔
(۱۰) واسروا نفوسہم۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن، جلد: ۵، ص: ۱۵)
اصل جملہ یوں ہے وسروا نفوسہم۔
تلک عشرۃ کاملۃ۔
قارئین کرام! مرزا قادیانی کی اردو، فارسی اور عربی گرامر اور محاورات کی اتنی زیادہ اغلاط ہیں کہ ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔
کاش کہ کوئی مجاہد ختم نبوت یہ کام بھی کر ڈالے۔ واللّٰہ الموفق والمعین۔
معیار نمبر ۱۰: انبیاء کرام بکریاں چراتے ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما بعث اللّٰہ نبیًا الا رعی الغنم فقال اصحابہ و انت فقال نعم کنت ارعاہا علی قراریط لاہل مکۃ ۔ (صحیح بخاری، باب الاجارہ، جلد: اوّل، ص: ۳۰۱)
ہر نبی نے چرواہا بن کر بکریاں چَرائیں۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ آپ نے بھی، فرمایا ہاں میں نے بھی چند پیسوں پر اہل مکہ کی بکریاں چَرائیں۔ اسی مفہوم کی روایت کنز العمال جلد: ۱۱، ص: صفحہ: ۴۷۵، رقم الحدیث: ۳۲۲۳۴ پر درج ہے۔
ہم دعویٰ سے کہتے کہ مرزا قادیانی نے انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت پوری نہیں کی اور بکریاں نہیں چَرائیں، مرزا قادیانی کا ایک ہفتہ بھی بکریاں چرانا ثابت نہیں چہ جائیکہ زیادہ عرصہ۔
اگر قادیانی گروہ کے پاس مرزا قادیانی کے بکریاں چَرانے کا کوئی ثبوت ہے تو فراہم کر کے انعام حاصل کریں۔
معیار نمبر۱۱: انبیاء کرام شاعر نہیں ہوتے:
اﷲ کے سچے نبی شاعر نہیں ہوتے اس لیے کہ شعروں میں جھوٹ اور مبالغہ ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں شان نبوت سے بہت بعید ہیں، قریش مکہ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر شاعر ہونے کا الزام لگایا اور قرآن مجید کو ان کی شاعری قرار دیا تو اﷲ جل شانہٗ نے قرآن مجید میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
’’ وَ مَا عَلَّمْنٰہُ الْشِّعْرَ وَ مَا یَنْبَغِیْ لَہُ اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّ قُرْآنٌ مُّبِیْنٌ۔ (سورۃ یٰسین: ۲۹)
ترجمہ: اور ہم نے نہیں سکھایا اس کو شعر کہنا اور یہ اس کے لائق نہیں یہ تو خاص نصیحت ہے اور قرآن ہے صاف۔
مرزا قادیانی کے ہاں الٹا معیار تھا وہ نہ صرف اردو، عربی، فارسی زبانوں میں شاعری کیا کرتا تھا بلکہ اسے اپنی صداقت کی دلیل ٹھہراتا تھا۔ مرزا نے عربی زبان میں ایک قصیدہ لکھا جس کا نام ’’القصیدۃ الاعجازیۃ‘‘ رکھا اور علماء سے اس قصیدہ کی مثل قصیدہ لکھنے کا مطالبہ کیا تو مولانا محمد حسن فیضی و دیگر علماء کرام نے اس قصیدہ کی علم صرف و نحو اور بلاغت کی اغلاط نکالیں اور کہا مرز اصاحب! پہلے ان اغلاط کی اصلاح کرو پھر اس قصیدہ کے معجزہ ہونے کا دعویٰ کرنا، لیکن اس نے ان اغلاط کی کوئی اصلاح نہ کی نتیجہ یہ ہے کہ وہ قصیدہ ان اغلاط کے ساتھ آج بھی چھپ رہا ہے۔
مرزا قادیانی نے اردو زبان میں شاعری کی، اس کی شاعری کے درج ذیل نمونے اس کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم نے تحریر کیے ہیں۔
عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا                      ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے                    تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے
…………………………
سبب کوئی خداوند بنا دے                          کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی                                  بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر                              دلا ایک بار شور و غل مچا دے
(سیرت المہدی، حصہ اوّل۲۱۳، ۲۳۱، ۲۳۲۔ روایت نمبر ۲۲۸)
مرزا صاحب کا اپنی نظر میں کیا مقام تھا، پڑھیے اور داد دیجیے۔
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں                          ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن، جلد: ۲۱، ص: ۱۲۷)
کیا اس قسم کی شاعری شانِ نبوّت کے لائق ہو سکتی ہے؟
معیار نمبر ۱۲: انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں:
دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ کوئی بڑا شخص کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر کہیں بھیجتا ہے تو وہ پہلے اس کا دیانت دار ہونا اور ہر لحاظ سے قابل اعتبار ہونا معلوم کرتا ہے پھر اسے نمائندہ بناتا ہے۔ یہی قاعدہ اﷲ جل شانہٗ کے ہاں بھی ہے اﷲ تعالیٰ جب دنیا میں اپنا کوئی نمائندہ (نبی رسول) بھیجتے ہیں تو اس میں چند خصوصیات پیدا فرما دیتے ہیں۔
۱۔ وہ دیانت دار ہوتا ہے۔
۲۔ وہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
۳۔ وہ ہر لحاظ سے لوگوں کے لیے ایک اُسوہ و نمونہ ہوتا ہے۔
۴۔ وہ گناہوں سے نفرت کرتا ہے۔ معمولی درجہ کا کوئی خلافِ اولیٰ کام بھی ان سے سرزد نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر وہ ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔
۵۔ وہ عبادات اور نیک کام میں سب سے آگے بڑھنے والا ہوتا ہے۔
قارئین کرام! حضرات انبیاءِ کرام علیہم السلام کی مذکورہ خصوصیات قلم برداشتہ لکھی ہیں ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان حضرات کے خصائل حمیدہ بے شمار ہوتے ہیں…… خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس وقت انبیاء کرام علیہم السلام کی صرف ایک خصوصیت زیر بحث ہے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں…… عصمت اور انبیاء و رُسل لازم و ملزوم ہیں، جو نبی و رسول ہے وہ معصوم ہے…… جو معصوم نہیں وہ نبی و رسول بھی نہیں۔ اس تفصیل کے بعد مرزا قادیانی کا اعتراف ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتا ہے:
’’کہ افسوس کی بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے اور نہ کسی انسان کو انبیاء علیہم السلام کے سوا معصوم ہونے کا دعویٰ ہے‘‘۔ (روحانی خزائن، جلد: ۷، ص: ۴۷)
قارئین کرام! اب نتیجہ جو بے تکلف نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ نبوت و معصومیت لازم و ملزوم ہیں، مرزا قادیانی اپنے معصوم ہونے سے چونکہ انکاری ہے اس لیے وہ نبی بھی نہیں ہے ، اگر وہ نبی ہوتا تو اپنے معصوم ہونے سے انکار نہ کرتا۔
معیار نمبر ۱۳: انبیاء کرام مصنف نہیں ہوتے:
حضرت انبیاء کرام دنیاوی علوم سے آراستہ اور کسی دنیاوی استاد کے شاگرد نہیں ہوتے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بے شمار القاب میں سے ایک لقب نبی اُمّی ہے، جس کا مفہوم ایک قول کے مطابق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دنیوی علم نہیں رکھتے وہ تلمیذ الرحمن ہیں، مرزا قادیانی بھی اس بات کو مانتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’لاکھ لاکھ حمد اور تعریف اس قادر مطلق کی ذات کے لائق ہے کہ جس نے…… تمام نفوس میں نفوس ِ قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا۔ (روحانی خزائن، جلد: ۱، ص: ۱۶ )
مرزا قادیانی کا اس کے برعکس معاملہ ہے۔ وہ اپنی تصنیفات کو اپنا معجزہ قرار دیتا ہے، چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے کہ ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔
(ملفوظات، جلد دوم، ص: ۴۸۳ طبع جدید)
۲۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھ کو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۱۰۴)
۳۔ یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشا پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیوں کہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔
(نزول المسیح روحانی خزائن، جلد: ۸، ص: ۴۳۴)
قادیانیوں سے چند سوالات:
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مرزا قادیانی جو کچھ لکھتا تھا وہ اﷲ تعالیٰ سے فیض پا کر لکھتا تھا، اگر یہ مان لیا جائے کہ روحانی خزائن میں لکھا ہوا ایک ایک حرف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوتا رہا ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے تو اس پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔ مرزا قادیانی نے سینکڑوں کی تعداد میں جو جھوٹ اپنی کتابوں میں لکھے کیا وہ حکمِ الٰہی سے لکھے ہیں؟ ( العیاذ باﷲ)
۲۔ مرزا قادیانی نے اپنے مخالفین کو جو بے تحاشا گالیاں دی ہیں وہ بھی اپنے الہامات اور ……کی روشنی میں دی ہیں؟ ( العیاذ باﷲ)
۳۔ مرزا قادیانی نے اپنے ذاتی حالات کے متعلق غلط بیانی بھی اپنی وحی کے موافق کی ہے؟ (العیاذ باﷲ)
۴۔ مرزا قادیانی نے اﷲ تعالیٰ جو توہین کی کیا وہ حکم الٰہی کے مطابق تھی۔ یعنی کیا اﷲ تعالیٰ نے مرزا کو اپنی توہین لکھنے کا حکم دیا تھا؟ (العیاذ باﷲ)
۵۔ مرزا قادیانی نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بے شمار انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔ کیا حکمِ الٰہی کے موافق تھی؟ (العیاذ باﷲ)
۶۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے مرزا کو امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کا حکم دیا تھا؟ (العیاذ باﷲ)
۷۔ مرزا قادیانی نے حضرت مریم علیہ السلام کی جو توہین کی ہے وہ حکمِ الٰہی سے کی ہے؟ (العیاذ باﷲ)
۸۔ مرزا قادیانی نے مختلف ناجائز طریقوں سے لاکھوں روپے کمائے جس کا اسے اعتراف ہے ، کیا یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم تھا؟ (العیاذ باﷲ)
۹۔ مرزا قادیانی نے قرنِ اوّل سے لے کر اپنے زمانہ تک بے شمار سلف صالحین کے جھوٹ بولا ہے، ان پر الزام تراشیاں کی ہیں ، کیا اس کا وحی میں حکم دیا گیا تھا؟ (العیاذ باﷲ)
۱۰۔ مرزا قادیانی نے اپنے تصانیف میں بیسیوں جگہ اپنے دعویٰ نبوت، مسیحیت و مہدیت کا اقرار و انکار کیا ہے۔ کیا یہ اقرار و انکار حکمِ الٰہی سے تھا؟ (العیاذ باﷲ)
قادیانی دوستو! خدا کے لیے غور کرو۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر وحی بھیجی و ما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ ۔ (تذکرہ، ص: ۳۸۸ طبع دوم)
اس کا ترجمہ اسی صفحہ کے حاشیہ میں اس طرح لکھا ہے ’’اور وہ اپنی خواہش کے ما تحت نہیں بولتا بلکہ وحی کا تابع ہے‘‘ قادیانیو! اب تمھارے لیے دو ہی راستے ہیں یا تو مرزا کے وحی کے موافق بولنے کے دعویٰ کو درست مان کر مذکورہ تمام سوالات کے جوابات دو یا پھر مرزا قادیانی کو جھوٹ مان کر حلقہ بگوش اسلام ہو جاؤ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی غلامی میں آ جاؤ۔ و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.