تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سلفِ صالحین اور کثرتِ عبادت کا صحیح طریقہ

محمد نعمان سنجرانی

ابوعثمان نہدی سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنی سواری پر سوار تھے اور جھکے ہوئے تھے، اُن کا رُخ مشرق(۱) کی طرف تھا۔ میں سمجھا اُن کی آنکھ لگ گئی ہے۔ میں اُن کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: حضرت کیا آپ سو رہے ہیں؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ (۲)
٭ حضرت احنف سے کہا گیا: آپ بوڑھے ہیں اور روزے سے آپ کو کمزوری ہو گی۔ فرمانے لگے: میں اِس کو ایک لمبے سفر کے لیے تیار کر رہا ہوں اور بتایا گیا ہے کہ حضرت احنف اکثر نوافل رات کے وقت ادا فرماتے تھے۔ وہ اپنی انگلی کو چراغ پر رکھتے تو کہتے حَسِّ(یعنی تکلیف کے وقت بولا جانے والا کلمہ جیسے: آہ یا سی سی) اور فرماتے: احنف تجھے کس چیز نے فلاں دن فلاں کام کرنے پر مجبور کیا تھا(یعنی اپنامحاسبہ کرتے)۔ (۳)
َ سعید الجُریری ابو العلاء سے اور وہ ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، جس نے کہا: میں حضرت تمیم داری رضی اﷲ عنہ کے پاس گیا، انھوں نے ہم سے باتیں کیں۔ میں نے پوچھا:آپ کتنے سپارے قرآن پڑھتے ہیں؟ فرمانے لگے: شاید تم اُن لوگوں میں سے ہو جو رات کو پورا قرآن پڑھ لیتے ہیں، پھر صبح بتاتے پھرتے ہیں کہ میں نے آج رات قرآن پڑھا ہے۔ جس ذات کے قبضے میں میری جان ہے اُس کی قسم! میں تین رکعت زائد نماز (یعنی نماز وتر جو فرائض سے زائد ہوتی ہے) صحیح طریقے سے ادا کر لوں تو مجھے ایک رات میں قرآن پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے، جس کی صبح میں لوگوں کو اپنی تلاوت کا بتاتا پھروں۔ مجھے اس بات پر غصہ آ گیا۔ میں نے کہا: آپ جو رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ کی جماعت ہیں، جو آپ میں سے زندہ ہیں، اﷲ کی قسم بہتر یہی ہے کہ آپ خاموش ہی رہا کریں تا کہ آپ کو پہچانا نہ جائے اور آپ اپنے سائلین کو غصہ نہ دلا سکیں۔ (تا کہ کوئی آپ کی بے ادبی نہ کر بیٹھے) جب اُنھوں نے مجھے غصے میں دیکھا تو نرمی سے فرمانے لگے: اے بھتیجے! میں تمھیں بات سمجھاؤں؟ دیکھو اگر میرا ایمان تمھارے مقابلے میں قوی ہوا اور تم اپنی کمزوری کی بجائے میری قوت کی پیروی کرنے لگے اور کر نہ پائے تو تم اعمالِ صالحہ سے بالکل ہی کٹ کر رہ جاؤ گے۔ اور اگر ایسا ہوا کہ تمھارا ایمان مجھ سے زیادہ قوی ہوا اور میں تمھاری قوّت کو دیکھ کر اپنے ضعف کو بھول جاؤں، تمھاری نقل کرنا چاہوں اور کر نہ پاؤں تو میں اعمالِ صالحہ سے بالکل محروم ہو جاؤں گا۔ بلکہ کرنے کا کام یہ ہے (یعنی بات برائے بات کے طور پر لوگوں سے اُن کی عبادت کی مقدار پوچھنے کی بجائے) اپنے آپ کو دیکھ کر اپنے دینی معاملات کو طے کرو اور اپنے دینی تقاضوں کو دیکھ کر اپنی مصروفیات چنو۔ تاکہ تمھیں عبادت کا ایسا درجہ اختیار کرنے کی توفیق مل جائے جس کی تم طاقت رکھتے ہو (تاکہ تم اُس پر مداومت اختیار کر سکو)۔(۴)
َ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما کی کثرتِ تلاوتِ قرآن سے متعلق جو حدیث پیچھے گزری ہے اُس پر امام ذہبی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے تشریحی کلمات میں لکھا ہے: اِسی طرح روزے کے معاملے میں حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما زیادہ روزے رکھنا چاہتے تھے مگر رسول اﷲ ﷺ اُن سے بار بار کم کرواتے رہے یہاں تک کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھو، ایک دن افطار کرو۔جو میرے بھائی داؤد علیہ السلام روزہ رکھنے کی سنت ہے۔ اسی طرح رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:روزے رکھنے کا سب سے افضل طریقہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے۔اسی طرح نبی پاک ﷺ نے صیام الدھر (یعنی بلا وقفہ متواتر نفل روزے رکھتے رہنا) سے منع فرمایا۔ اسی طرح نبی پاک ﷺ نے رات کا کچھ حصہ سونے کا بھی حکم فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: میں رات کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، شادی بھی کرتا ہوں اور گوشت بھی کھاتا ہوں، جس کو میرے طریقے اور سنت میں رغبت نہیں وہ میرا نہیں۔لہٰذا ہر وہ شخص جو اپنے نوافل اور اوراد میں اپنے آپ کو سنتِ نبویّہ پر باندھ کر نہیں رکھے گا اُس کا مزاج بگڑ جائے گا اور وہ پریشانیوں اور ندامت کا سامنا کرے گا۔ اُس سے اپنے نبیﷺ کی سنت چھوٹ جائے گی،جو بہت مہربان اور مؤمنوں پر بہت رحم کرنے والے ہیں، جس کا چھوٹنا بلا شبہ بہت بڑی بھلائی سے محروم ہونا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مؤمنین کو نفع پہنچانے کی بہت زیادہ حرص رکھنے والے تھے اور آپ ﷺنے ہمیش اُمت کو افضل ترین اعمال سکھائے۔آپ ﷺ ہی نے منقطع ہو جانے اور رہبانیت سے منع فرمایا کہ آپ ﷺ کو ان کا حکم دے کر نہیں مبعوث کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے پے در پے نفل روزے رکھنے سے، روزوں کے درمیان افطار نہ کرنے سے ممانعت فرمائی، آپ ﷺ ہی نے رمضان کے آخری عشرے کے علاوہ ساری ساری رات جاگ کر عبادت کرنے سے منع فرمایا۔ استطاعت رکھنے والے کو کنوارا رہنے سے منع فرمایا، گوشت چھوڑنے سے روکا، آنحضرت ﷺ کے اس طرح کے بہت سے اوامر و نواہی ہیں۔ چنانچہ ایسا عابد جس کو ان احکامات کا پتا نہ ہو، اُس کا تو عذر ہے اور اُس کو اپنی عبادت کا اجر ملے گا، مگر وہ عابد جو سنتِ محمدیﷺ کو جاننے کے بعد اُس سے تجاوز کرتا ہے وہ افضل نہیں ہے بلکہ دھوکے میں مبتلا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اعمال وہ ہیں جو اگرچہ تھوڑے ہوں لیکن ہمیشگی کے ساتھ ہوں۔ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ ہمیں اور تمھیں نبی ﷺ کی اچھی پیروی سکھائیں اور اُن کی مخالفت اور اپنی خواہش سے بچائیں۔ (۵)
َ طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: جب رات ہوتی ہے تو لوگ تین درجوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے کہ رات جن کے لیے فائدہ مند ہے، نقصان دہ نہیں، دوسرا درجہ وہ ہے کہ اُن کے لیے ضرر کا باعث ہے فائدہ مند نہیں، تیسرا درجہ وہ ہے کہ اُن کو رات کے آنے سے فائدہ ہوتا نہ نقصان۔ میں نے عرض کیا: یہ کیسے؟ فرمانے لگے: وہ لوگ جن کو رات کا فائدہ ہے اور رات اُن کو ضرر نہیں پہنچاتی، وہ ایسے ہیں جنھوں نے سب کی غفلت اور رات کے اندھیرے کو غنیمت سمجھا تو وضو کیا اور نماز (یعنی نوافل) پڑھ لی۔ ایسوں کے لیے رات اُن کے حق میں اچھی ہے بری نہیں۔ ایک وہ شخص ہے جس نے لوگوں کی غفلت اور رات کے اندھیرے کو غنیمت سمجھا اور اﷲ کی نافرمانیوں کے لیے چل پڑا، ایسے شخص کے لیے رات نامۂ اعمال کی سیاہی کا باعث ہے فائدے کا نہیں۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو صبح تک سوتا ہے، ایسے کو نہ رات کا فائدہ نہ نقصان۔ طارق کہتے ہیں: میں نے سوچا میں اِن حضرت کی صحبت کو ضرور اختیار کروں گا۔ کہتے ہیں کہ ایک جگہ جہاد کا اعلان ہوا، حضرت سلمان بھی مجاہدین کے لشکر میں تشریف لے گئے اور میں اُن کے ساتھ رہا۔ ہمارا حال یہ تھا کہ میں عمل میں اُن سے کبھی آگے نہ بڑھ سکتا تھا، اگر میں آٹا گوندھتا تو وہ روٹیاں پکا دیتے، اگر میں روٹیاں پکاتا تو وہ سالن تیار فرما دیتے۔ ہم نے ایک جگہ رات گزارنے کے لیے پڑاؤ ڈالا، طارق کی عادت تھی کہ وہ رات کے ایک حصے میں قیام اللیل کرتے تھے۔ کہتے ہیں: جب میں اپنے وقت پر جاگا تو میں نے دیکھا کہ وہ سو رہے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ اﷲ کے رسول ﷺ کے صحابی ہیں، مجھ سے بہتر ہیں اور یہ سو رہے ہیں تو میں بھی سو گیا۔ میں پھر جاگتا، پھر اُنھیں سویا ہوا پاتا تو سو جاتا۔ البتہ یہ تھا کہ جب کبھی رات کو اُن کی نیند اکھڑتی تو لیٹے لیٹے فرماتے: سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر۔لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد و ہو علیٰ کل شیء قدیر۔ یہاں تک صبح سے کچھ پہلے اُٹھے، وضو کیا، چار رکعت نماز پڑھی۔ جب ہم نے فجر کی نماز پڑھ لی تو میں نے عرض کیا: ابو عبداﷲ میں رات کے ایک وقت میں اٹھا کرتا ہوں، میں جاگتا تھا اور آپ کو سویا ہوا دیکھتا تھا۔ فرمانے لگے: بھتیجے! مجھے کچھ کہتے ہوئے سنتے تھے؟ میں نے اُنھیں بتایا، فرمانے لگے: بھتیجے یہ بھی نماز ہے۔ بے شک پانچ نمازیں درمیانی وقفوں میں ہونے والی غلطیوں کا کفارہ ہیں، جب تک کہ تم قتل و غارت گری(جیسے کبیرہ گناہوں سے) بچتے رہو۔ بھتیجے! اعتدال کا راستہ مضبوطی سے تھامو، اس لیے کہ یہ راستہ زیادہ اچھے طریقے سے منزل تک پہنچاتا ہے۔ (۶)
َ اسد بن وَداعہ حضرت شدّاد بن اَوس رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ بستر پر لیٹتے تو کروٹیں بدلتے رہتے اور اُنھیں نیند نہ آتی۔ فرماتے: اے اﷲ! آگ(کے خوف) نے میری نیند اُڑا دی، پھر اُٹھ کھڑے ہوتے اور صبح تک نماز میں مصروف رہتے۔ (۷)
َ اُنھیں سے روایت ہے کہ حضرت شدّاد بن اَوس رضی اﷲ عنہ اپنے بستر پر تشریف لاتے اور اُن کی کیفیت ایسی ہوتی جیسے وہ کڑاہی میں پڑا ہوا دانہ ہوں۔ فرماتے: اے اﷲ! آگ(کی پریشانی) مجھے سونے نہیں دیتی اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ (۸)
َ امام ذہبی اپنی سند کے ساتھ ابو الاحوص سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: کہ حضرت مسعود بن معتمر کے پڑوسی کی بیٹی اپنے والد سے کہنے لگی: بابا جان! وہ لکڑی کہاں گئی جو منصور کی چھت پر گڑی ہوئی تھی۔ اُس نے کہا: بیٹی! وہ منصور تھے، جو قیام اللیل کرتے تھے۔ (۹)
َ نُعیم بن حماد کہتے ہیں: حضرت عبداﷲ بن مبارک جب کتاب الرقاق (حدیث کی کتابوں کا وہ باب جس میں زہد، کثرتِ عبادت اور دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ کی احادیث و احوال ذکر کیے جاتے ہیں) پڑھتے تو شدّتِ گریہ سے اُن کی کیفیت یوں ہوتی جیسے وہ ذبح ہوتی ہوئی گائے یا بیل ہوں، ایسے میں ہم اُن سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے کی جرأت نہ کرتے تھے، کہ وہ ہمیں (سوال کا جواب)دیں۔ (۱۰)
َ ابراہیم بن محمد بن سفیان کہتے ہیں، میں نے عاصم بن عصام بیہقی کو سنا، وہ کہتے تھے: ایک بار میں رات کو حضرت امام احمد بن حنبل کے ہاں ٹھہرا، وہ پانی لے کر آئے اور اُسے رکھ دیا۔ جب صبح کو آئے اور پانی کو ویسے کا ویسا رکھا دیکھا تو فرمانے لگے: سبحان اﷲ! ایک آدمی طالب علم ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کا رات کو کوئی ورد و شغل نہ ہو۔ (۱۱)
َ اسحٰق بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت فضیل ؒ کو فرماتے ہوئے سنا: جب تو رات کے قیام اور دن کے صیام کی قدرت نہ رکھے تو یقین کر لے کہ تو بیڑیوں میں جکڑا ہوا محروم ہے، تجھے تیرے گناہوں کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے۔ (۱۲)
َ امام ذہبی، صوفی احمد بن حواری کے حالاتِ زندگی کے بیان میں اُن کی کچھ باتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ اعلیٰ ترین طریقہ، طریقۂ محمدیہﷺ ہے۔ وہ یہ ہے کہ طیبات کو تناول کیا جائے اور حلال چاہتوں کو اسراف سے بچتے ہوئے پورا کر لیا جائے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:یٰا اَ یُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطِّیِّبَاتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا۔(اے رسولو! کھاؤ پاکیزہ چیزیں اور بھلے کام کرو)۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا ہے: لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں،رات کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اپنی ازواج کے ساتھ بھی رہتا ہوں اور گوشت بھی کھاتا ہوں، جس کو میرے طریقے اور سنت میں رغبت نہیں وہ میرا نہیں۔چنانچہ نبی پاک ﷺ نے رہبانیت، بکھر جانے اور افطار کیے بغیر روزے رکھنے سے منع فرمایا بلکہ پے در پے نفل روزے رکھنے کو بھی ممنوع ٹھہرایا۔ دین اسلام سیدھا، کشادہ اور آسانی کا دین ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ممکن ہو تو طیّب کھانا کھا لیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے، لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعِتِہٖ(چاہیے کہ وسعت والا اپنی وسعت کے موافق خرچ کرے)۔ ہمارے نبی ﷺ اپنی ازواج مطہّرات سے محبت رکھتے تھے، اسی طرح گوشت، میٹھی چیز،شہد، ٹھنڈا اور مشروب اور مشک پسند تھی حالانکہ وہ سب مخلوقات سے زیادہ اﷲ کے محبوب اور سب سے افضل ہیں۔ پھر وہ عابد جو علم سے عاری ہو جب زہد اور تَبَتُّل اختیار کر کے بھوکا رہتا ہے، خلوت میں رہ کر گوشت اور پھل چھوڑ دیتا ہے اور روکھی سوکھی پر گزارہ کرتا ہے تو اُس کے حواس میں صفائی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کے نفس کے مکالمات شروع ہو جاتے ہیں۔ بھوک اور جاگنے کی وجہ سے اُسے ایسی باتیں سنائی دینے لگتی ہیں جن باتوں کا خارج میں واﷲ کوئی وجود نہیں ہوتا اور شیطان اُس کے باطن میں آر جار شروع کر دیتا ہے تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب وہ پہنچا ہوا ہے۔ اُسے ترقی نصیب ہو گئی اور اُسے الہام ہوتا ہے، تب شیطان اُس کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے اور اُ س میں وسوسے پیدا کرنے لگتا ہے۔ جس کی نتیجے میں وہ مؤمنین کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اُن کے گناہوں کو یاد رکھتا ہے جبکہ اپنے آپ کو کامل سمجھتا ہے اور معاملہ کبھی کبھی یہاں تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود کو ولی اور صاحبِ کرامت و فراست سمجھنے لگتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اِسے اپنے ایمان میں شک اور تزلزل کی کیفیت بھی پیش آ جاتی ہے۔ لوگوں سے علیحدہ رہتے ہوئے (غیر مشروع طریقے سے) بھوک پیاس کا عادی بننا، رہبانیت کی ابتدا ہے، جس کی ہماری شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔ ہاں البتہ! سلوک اختیار کرنا، التزام کے ساتھ ذکر کرتے رہنا، عوام الناس سے اُٹھنے بیٹھنے سے گریز کرنا، خطاؤں پر رونا، ترتیل و تدبر کے ساتھ تلاوت کرنا، اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں اپنے نفس کی مذمت اور مخالفت کرنا، مشروع طریقے سے بہت روزے رکھنا، ہمیشہ تہجد پڑھنا، مسلمانوں کے سامنے خود کو کم تر سمجھنا، رشتہ داری کا خیال رکھنا، ہمیشہ خندہ روئی سے ملاقات کرنا، فاقے کے باوجود دوسروں پر خرچ کرنا، اور حق کی کڑوی بات کو بھی نرمی اور محبت کے ساتھ کہہ دینا، امر بالمعروف کرنا، معافی کی عادت ڈالنا، جاہلوں سے چشم پوشی کرنا، محاذ پر جاگ کر پہرہ دینا، دشمن سے جہاد کرنا، کبھی کبھار پاکیزہ چیزیں کھا لینا اور کثرت سیاستغفار کرنا۔ یہ ہیں محمدیﷺ اولیاء کی عادات و خصائل، اﷲ اِنھی کی محبت پر موت دے۔ (۱۳)
﴿ حواشی
(۱) علماءِ راسخین کے نزدیک نماز میں قبلے کی طرف رخ کرنا فرض ہے، البتہ نفل نماز کو سواری پر پڑھتے ہوئے اگر سواری کا رخ قبلے سے پھر جائے تو بھی نماز ہو جاتی ہے۔ فرائض و واجبات کو ادا کرتے ہوئے قبلے سے رُخ پھرنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔ (۲)سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص: ۸۷۔(۳) سیر اعلام النبلاء، ج:۴، ص: ۱۹۔۲۹۔( ۴ )سیر اعلام النبلاء، ج:۲،ص: ۲۴۴ ۔( ۵)سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۴۸۔۵۸۔ (۶) سیر اعلام النبلاء، ج: ۱، ص:۹۴۵۔۰۵۵ ۔ ( ۷)صفۃ الصفوۃ، ج: ۱، ص: ۹۰۷۔(۸)ایضاً۔(۹)سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص:۳۰۴۔(۱۰)سیر اعلام النبلاء، ج: ۸، ص:۴۹۳۔(۱۱)سیر اعلام النبلاء، ج: ۱۱، ص:۸۹۲۔(۱۲)صفۃ الصفوۃ، ج: ۲، ص: ۸۳۲۔ (۱۳) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲۱، ص: ۹۸۔۱۹۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.