تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد کے نام کھلا خط

ابوعمار زاہد الراشدی

(مولانا زاہد الراشدی کا ایک اہم خط جو انھوں نے اب سے تقریباً ربع صدی قبل اس وقت کے قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے نام لکھا تھا۔ جو ان کو بھجوانے کے ساتھ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے ستمبر ۱۹۹۵ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مرزا طاہر احمد ، مرزا قادیانی کے پوتے تھے، اور مرزا مسرور احمدکے دادا مرزا شریف ہیں جو مرزا قادیانی کے چھوٹے بیٹے تھے۔ اگر چہ احوال میں اسی طرح کی کچھ جزوی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں [مثلا وارث دین محمد مرحوم کے انتقال کے بعد لوئیس فرّخان کے ارتدادکا حال] مگر مرکزی صورتحال جوں کی توں ہے اس لیے مولانا راشدی نے وہی خط اب قادیانی امت کے موجودہ سربراہ مرزا مسرور احمد کے نام جاری کیا، اور اپنے کالم میں شائع کیا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر شاملِ اشاعت ہے) جناب مرزا مسرور احمد صاحب سربراہ قادیانی جماعت، مقیم برطانیہ السلام علیٰ من اتّبع الہدٰی گزارش ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سال پھر اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں قادیانی جماعت کے مبینہ انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا ہے اور متعدد قادیانیوں کے خلاف درج مقدمات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو اس کا ملزم ٹھہرایا ہے۔ میں اس خط کے ذریعے اسی اہم مسئلہ پر آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت نہ صرف مسلمانوں اور قادیانیوں کے مابین تنازعہ اور کشیدگی میں شدت کا باعث بنا ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کے ہاتھ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں آپ کو حقائق و مسلمات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ سے کوئی ایسا معقول طرز عمل اختیار کرنے کی اپیل کی جائے جو اس کشیدگی میں کمی کا باعث بن سکے اور فریقین اپنی بہترین توانائیاں اور صلاحیتیں اس محاذ آرائی پر صرف کرنے کی بجائے انہیں مثبت مقاصد کے لیے استعمال میں لا سکیں۔ جناب مرزا صاحب! آپ کے دادا مرزا غلام احمد قادیانی نے آج سے ایک صدی قبل نبوت کا دعوٰی کیا تھا اور نئی وحی کے حوالے سے اپنی تعلیمات پیش کرنے کا آغاز کیا تھا، جسے امت مسلمہ کے تمام علمی و دینی حلقوں نے اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت اور اس کی تیرہ سو سالہ اجماعی تعبیر سے انحراف قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے کر ان سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف مرزا صاحب اور ان کے جانشینوں نے مرزا صاحب پر نازل ہونے والی مبینہ وحی الٰہی پر ایمان لانے کو ضروری گردانتے ہوئے ایمان نہ لانے والوں یعنی دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنا ہم مذہب تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اور اس طرح مسلمان اور قادیانی دونوں فریق اس نکتہ پر متفق ہوگئے تھے کہ دونوں گروہ ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں بلکہ دونوں کا مذہب الگ الگ ہے اور ان میں مذہبی طور پر کوئی نقطہ اتحاد موجود نہیں ہے۔ یہ ایک واقعاتی حقیقت ہی نہیں بلکہ مذاہب عالم کے درمیان ہزاروں سال سے کارفرما ایک مسلمہ اصول بھی ہے جس کی بنیاد پر مذاہب ہمیشہ سے ایک دوسرے سے الگ شمار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن قادیانی جماعت عملاً اس حقیقت اور اصول پر عمل پیرا ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کہلانے پر اصرار کر کے اس اصول کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے جو مسلمانوں اور قادیانیوں کے مابین موجودہ تنازعہ اور کشیدگی میں اصل وجہ نزاع ہے۔ قادیانی جماعت کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان رکھتی ہے اس لیے اسے مسلمان کہلانے کا حق ہے۔ لیکن یہ موقف مذاہبِ عالم کے تاریخی تسلسل میں کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ آپ خود تاریخ پر نظر ڈال لیجئے۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور توراۃ پر ایمان رکھتے ہیں۔ جبکہ عیسائی بھی ان دونوں پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور انجیل کو بھی مانتے ہیں، اس لیے وہ حضرت موسٰیؑ اور توراۃ پر ایمان رکھنے کے باوجود یہودی نہیں کہلاتے بلکہ ایک الگ مذہب کے پیروکار شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ سمیت تمام انبیاء سابقین کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں اور توراۃ، زبور اور انجیل سمیت تمام سابقہ کتب و صحائف کو سچا مانتے ہیں، لیکن چونکہ وہ ان سب کے بعد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم پر بھی ایمان رکھتے ہیں اس لیے وہ نہ یہودی کہلا سکتے ہیں نہ عیسائی بلکہ ان دونوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ یہ مذاہب عالم کا تاریخی تسلسل ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ موقف اسی تاریخی تسلسل کا حصہ ہے کہ قادیانی گروہ چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت اور ان پر نازل ہونے والی مبینہ وحی پر ایمان رکھتا ہے اور اس پر ایمان کو اپنے مذہب میں شمولیت کی لازمی شرط قرار دیتا ہے اس لیے وہ حضرت محمدؐ اور قرآن کریم پر ایمان کے دعوے کے باوجود ملتِ اسلامیہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایک الگ اور نئے مذہب کا پیروکار ہے۔ مذاہب عالم کے مسلمہ اصول اور تاریخی تسلسل کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے درمیان جداگانہ شناخت اور پہچان کے نقطۂ نظر سے بھی ضروری ہے کہ قادیانی گروہ چونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنا ہم مذہب تسلیم نہیں کرتا اس لیے وہ ان سے اپنی شناخت الگ کرے اور الگ نام اختیار کرنے کے علاوہ مذہبی علامات اور اصطلاحات بھی الگ وضع کرے، تاکہ دونوں کے درمیان جداگانہ تشخص اور امتیاز قائم ہو جائے اور کوئی فریق دوسرے کے حقوق پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے قادیانیوں کے بارے میں، اس بات سے قطع نظر کہ نبوت کے نئے دعوے داروں کے حوالہ سے جناب رسول اﷲؐ اور صحابہ کرامؓ و خلفائے راشدین کے طرز عمل کی روشن میں ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داری کیا ہے، مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی تجویز پر صرف اس بات پر قناعت کر لی کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان جداگانہ مذہبی تشخص قائم کر دیا جائے اور قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار تسلیم کر لیا جائے۔ چنانچہ پاکستان میں قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور قانونی طور پر اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مذہبی علامات و اصطلاحات کے استعمال سے روک دینے کے اقدامات کیے گئے۔ جنہیں آج قادیانیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا عنوان دے کر ملت اسلامیہ اور پاکستان کے خلاف مسلسل مہم چلائی جا رہی ہے۔ جناب مرزا صاحب! ’’انسانی حقوق‘‘ کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو اصل صورتحال اس سے مختلف ہے کیونکہ مذہبی تشخص اور ملی شناخت کے تحفظ کا حق دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مسلمانوں کو بھی حاصل ہے۔ اور انہیں مسلمہ طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے گروہ کو اپنا نام استعمال نہ کرنے دیں اور اپنی مذہبی اصطلاحات و علامات کے استعمال سے روکیں جو ان سے الگ مذہب رکھتا ہے، اور وہ اپنا یہ جائز حق استعمال کر کے کسی پر زیادتی نہیں کر رہے اور نہ کسی کا کوئی حق پامال کر رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس قادیانی جماعت اپنے مذہب کو مسلمانوں کے مذہب سے الگ قرار دیتے ہوئے بھی اسلام کا نام اور مسلمانوں کی علامات و اصطلاحات کے استعمال پر اصرار کر کے مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مجروح کر رہی ہے اور ان کے جداگانہ مذہبی تشخص کو پامال کر رہی ہے جو دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ قادیانی جماعت کا یہ طرز عمل مذاہب عالم کے تاریخی تسلسل اور مذاہب کے درمیان فرق و امتیاز کے مسلمہ اصول سے انحراف ہے اور مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان موجودہ تنازعہ اور کشیدگی میں یہی اصل وجہ نزاع ہے۔ اس ضمن میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قادیانی جماعت کی دو معاصر تحریکوں کے طرز عمل کا بھی حوالہ دیا جائے۔ ایک امریکہ کے سیاہ فام لیڈر الیج محمد کی تحریک ہے جنہوں نے اسی صدی کے دوران اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا اور نئی مبینہ وحی کے حوالے سے اپنی تعلیمات پیش کیں، جنہیں ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے مسترد کر دیا۔ الیج محمد کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے لیکن ان کے فرزند جناب وارث دین محمد نے حق کے واضح ہونے کے بعد اپنے باپ کے غلط عقائد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کے اجماعی عقائد کو قبول کرنے اور امت کے اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا اور آج وہ امریکہ میں صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کی قیادت کر رہے ہیں۔ اور دوسری تحریک ایران کے بابیوں اور بہائیوں کی ہے جس کے بانی محمد علی باب اور بہاء اﷲ نے نبوت اور نئی وحی کا دعوٰی کیا لیکن ساتھ ہی مذاہب عالم کے مسلمہ اصول کا احترام کرتے ہوئے اپنا نام اور مذہبی شناخت مسلمانوں سے الگ کر لی اور مسلمان کہلانے یا خود کو مسلمانوں کی صف میں شامل رکھنے پر اصرار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کے بنیادی اختلاف کے باوجود ان کے ساتھ مسلمانوں کا اس طرز کا کوئی تنازعہ موجود نہیں ہے جس طرح کا تنازعہ قادیانیوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ جناب مرزا صاحب! یہ ایک نظر آنے والی واضح حقیقت ہے کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان موجودہ کشمکش کی اصل وجہ مذاہب کا اختلاف نہیں بلکہ مذہبی اختلاف کے منطقی نتائج کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ اسے تسلیم نہ کرنے کی تمام تر ذمہ داری قادیانی جماعت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا موقف بالکل واضح ہے کہ قادیانی گروہ کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے الگ ہے اس لیے وہ مسلمانوں کا نام اور اصطلاحات استعمال کر کے اشتباہ پیدا نہ کرے اور نہ ہی مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور تشخص کو مجروح کرے، بلکہ اپنے لیے الگ نام اور علامات و اصطلاحات وضع کر کے اس کشیدگی کے خاتمہ کی طرف قدم بڑھائے۔ ان گزارشات کے ساتھ آنجناب سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ایک غلط اور غیر منطقی موقف پر ضد کر کے نہ خود پریشان ہوں اور نہ مسلمانوں کو پریشان کریں۔ بلکہ بہتر بات تو یہ ہے کہ جناب وارث دین محمد کی طرح غلط عقائد سے توبہ کر کے ملتِ اسلامیہ کے اجماعی عقائد کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہو جائیں، آپ کے اس حقیقت پسندانہ فیصلہ کا پوری امتِ مسلمہ کی طرف سے خیرمقدم کیا جائے گا۔ اور اگر یہ آپ کے مقدر میں نہیں ہے تو بابیوں اور بہائیوں کی طرح اپنی مذہبی شناخت مسلمانوں سے الگ کر لیں اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کا جمہوری فیصلہ قبول کر کے غیر مسلم اقلیت کا جائز اور منطقی کردار اختیار کر لیں۔ اس کے سوا کوئی تیسرا راستہ معقولیت اور انصاف کا راستہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ مغربی حکومتوں اور لابیوں کے سہارے کسی غلط اور نامعقول موقف کو مسلمانوں سے منوا سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ گزارشات آپ کو مثبت اور صحیح رخ پر سوچنے کے لیے ضرور آمادہ کر سکیں گی۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدٰی ابوعمار زاہد الراشدی خطیب مرکزی جامع

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.