تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مظہر حسین،ترکی بن سعود اور ہمارا عدالتی نظام

مفتی توصیف احمد

۲۰ سال قبل ایک واقعہ رونما ہوتا ہے ،ایک شخص قتل ہوتا ہے، ملزم کو نامزد کیا جاتا ہے ، اس کے خاندان پر افتاد ٹوٹ پڑتی ہے، وہ دوہائیاں دیتے ہیں ہم مظلوم ہیں ہم نے قتل نہیں کیا۔ بہر حال قاتل با اثر ہے غریب کو دبوچ لیتا ہے، رپورٹ درج ہوتی ہے ،کیس چلتا ہے اور طویل ترین کیس ہوتا ہے ، کئی نشیب و فراز اس کی زندگی میں آتے ہیں، اس کا والد مقدمے کی پیروی کرتا ہے ،عدالت کے چکر کاٹتا ہے اور چکر کاٹتے کاٹتے اس کی زندگی کا سفر کٹ جاتا ہے۔ چچا میدان میں آتا ہے دشمن ظالم نظریں جمائے بیٹھا ہے ،زمین جائیداد نیلام ہوتی ہے، کیس چل رہا ہے چچا بھی عدالتی نظام کے شکنجے میں روز بروز پھنستا جاتا۔ ہے ایک روز زندگی وفا نہیں کرتی اور داغ مفارقت دے جاتی ہے، ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے اکیلا ہے کوئی کیس کی پیروی کرنے والا نہیں ۔باپ اور چچا اﷲ کو پیارے ہو گئے وہ انصاف کا منتظر ہے شاید اﷲ کی عدالت میں اس نے اپلائی کر دیا تھا، اب عدالتی نظا م کی بے رحم موجیں دبیزتہوں میں پھنسے انصاف کو اوپر لاتی ہیں ،سوموٹو ایکشن ہوتاہے یا کسی جج میں خدا خوفی کی رگ پھڑکتی ہے ،کیس اوپر آتا ہے اور ملزم کو عدالت کی طرف سے باعزت بری کر دیا جاتا ہے ،خوشی کے شادیانے بجتے ہیں ،بیس سال بعد انصاف میڈیا کے ہاتھ لگتا ہے ،میڈیا ٹیمیں ملزم کے گھر کا سراغ لگاتی ہیں اس بات سے قطعی بے خبر کے ملزم کہ گھر میں خوشی کے شادیانے نہیں بلکہ غموں کے بادل منڈلا رہے ہیں شاید اس کی قبر کی مٹی بھی خشک ہو چکی تھی۔
یہ کہانی مظہر حسین کی ہے جو پنجاب کا رہائشی تھا اور قتل کے جھوٹے مقدمے میں ۲۰ سال سے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتا اس دنیا سے نالاں ہوکر اﷲ کے حضور پہنچ چکا تھا ،اس واقعے کی شہرت میڈیا تک پہنچتی ہے اور اعلیٰ عدلیہ پر سوال اٹھتے ہیں ہر کوئی عدالتی نظام کی پیچیدگیوں پر چہ مگوئیاں کرتا ہے۔ اتنی سست روی کہ مقدمے کے تین فریق دنیا سے چل بسے اور انصاف کا سورج طلوع ہوا ۔
ابھی مظہر حسین کے کیس کی صدائے باز گشت جاری تھی کہ اس کیس سے ملتا جلتا ایک اور مقدمہ سامنے آتا ہے، دو بھائیوں کو عدالت عظمیٰ سے بری ہونے کا پروانہ ملتا ہے، عدالت گواہوں کے بیان میں تضاد سے مطمئن نہیں دکھتی اور فرمان جاری کرتی ہے کہ ان گواہوں کی شہادت سے سزائے موت نہیں دی جا سکتی لھٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے ،اسی اثناء میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور عدالت ان بھائیوں کی سزا میں توثیق کر چکی ہے اور وہ بہاول پور کی جیل میں پھانسی پر چڑھا دیے گئے ہیں۔مظہر حسین بیس سال بعد انصاف کے حق دار بنتے ہیں اور عدالت عالیہ کی طرف سے بری ہونے کا نوٹیفیکیشن شاید ان کی قبر کے کتبے پر چسپاں کیا جائے گا ،ان کی نسلیں اس براء ت سے شاہد مستفید ہوسکیں اور دو بھائی کس جرم کی پاداش میں تخت دار پر لٹکائے جاتے ہیں ۔……
ان واقعات کے تناظر میں اگر اسلام کے عدالتی نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہاں امیر و غریب یکساں ہیں۔ انصاف حکومت اور دولت کی ریل پیل اور دمک سے دبتا نہیں ۔حاکم بھی عدالت کے کٹہرے میں برابر کھڑا ہوتا ہے ،قاضی شریح کی عدالت میں امیر المومنین سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی طلبی ہوتی ہے، زرہ کی گمشدگی اور یہودی کی ملکیت کا کیس ہے باوجود یکہ امیر المومنین جانتے ہیں کہ زرہ ان کی ہے، قاضی صاحب امیر المومنین کی آمد پر کھڑے ہوتے ہیں توسیدنا علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں’’ میں یہاں امیرالمومنین نہیں بلکہ فریق مقدمہ کے طور پر حاضر ہوا ہوں۔ عدالت گواہ طلب کرتی ہے توسیدنا علیؓ اپنے بیٹے حسن کو پیش کرتے ہیں۔ عدالت بیٹے کو بطور گواہ قبول نہیں کرتی تو مقدمہ خارج ہوتا ہے اور زرہ یہودی کی ملکیت قرار پاتی ہے اور یہودی حلقہ بگوش اسلام ہوجاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ ایک تو فوری انصاف اور دوسرا حاکم وقت کے خلاف ……جس کی آج کل توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔
گزشتہ پنج سال میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انصاف کے تقاضے کسی حد تک پورے کئے ،کسی حد تک یہ معلوم ہونے لگا تھا کہ اب انصاف غریب کی دہلیز پر میسر ہوگا جو قانون حکمرانوں کو عدالت کے کٹہرے میں گو کہ ’’تیس سیکنڈ‘‘کے لاسکتا ہے وہ اس ملک کے غریبوں کو بھی انصاف فراہم کرے گا۔ پھر ایسی خاموشی ہوئی کہ انصاف کی اعلیٰ مثالیں آنا بند ہوگئیں
حال ہی میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادے ترکی بن سعود کو دوست کے قتل کرنے پر سزائے موت دی گئی اور کسی با اثر حکومتی شخصیت نے عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات سے قطع نظر کہ دیت کے معاملے میں کافی منت سماجت اور سفارش کی گئی لیکن کوئی شخصیت اور ریالوں کی کثرت انصاف کے تقاضوں میں حائل نہ ہوئی اور اس شہزادے کی گردن اڑا کر انصاف کا ایک روشن باب قائم کیا گیا ۔ہم بحیثیت پاکستانی اس طرح کے انصاف کی توقع کر سکتے ہیں ؟کسی شاہی خاندان کے سپوت کے خلاف ایسی کارروائی ممکن ہے ؟ قصاص میں قتل دور کی بات ہے کیا ہم پانامہ لیکس کے حوالے سے عدالت پر اثر انداز تو نہ ہوں گے؟منی لانڈرنگ اور ایان علی کیس میں تفتیشی افسر کے قتل سے کچھ سیکھیں گے یا مظہر حسین کی طرح بیس سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد عدالت سے بری ہونے کے پروانے لیتے رہیں گے ……؟بہاول پور کے دو بھائیوں کے قتل کا ذمہ دار کون ہے ؟عدالت پولیس یا گواہان ؟اگر ہر کیس کو فوری حل کیا جائے تو اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں جنہیں سن کر شرمندگی کا احساس ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.