تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قرآن سے محبت اور انگریز سے نفرت ڈسٹرکٹ جیل میانوالی کا ایک گمشدہ صفحہ

حضرت امیرِ شریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ
انتخاب و ترتیب: نبیرۂ امیرِ شریعت سید عطاء اﷲ ثالث بخاری

میانوالی جیل کے مندرجہ ذیل واقعات پر مشتمل ایک مضمون حضرت امیرِ شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲعلیہ کے نام سے سب سے پہلے روزنامہ ’’آزاد‘‘ لاہور کے ’’قیدی نمبر‘‘ مؤرخہ۱۶؍ رمضان المبارک ۱۳۶۶ ھ، مطابق ۴/ اگست ۱۹۴۷ء، صفحہ ۱۰؍ میں شائع ہوا۔ جسے مدیر ’’آزاد‘‘ جناب آغا شورش کا شمیری مرحوم نے حضرت امیرِ شریعت رحمہ اﷲ کی مجلسی گفتگو کو تحریری شکل میں ڈھال کر شاملِ اشاعت کیا۔ بعد میں جانباز مرزا مرحوم نے اپنے ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ لاہور کے امیرِ شریعت نمبر (اگست، ستمبر ۱۹۶۲ء، صفحہ: ۴۵،۴۶) میں دوبارہ شائع کیا۔
پہلے واقعے میں امیر مینائی کی جس غزل کا مقطع مذکور ہے اس غزل کی مکمل دریابی کے لیے ہم اپنے عزیزہمدم و مہربان جناب ڈاکٹر عبد الرازق کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے دیوانِ امیر مینائی سے اس غزل کو مکمل کر کے فراہم کیا۔ ان کے شکریہ کے ساتھ مکمل غزل قارئین کی نذر ہے۔
ترتیب کے ابہام کے باعث دوسرے واقعے کے بارے میں بعض مصنفین کو یہ واہمہ پیدا ہوا کہ وہ شاید ڈم ڈم جیل، کلکتہ کی اسارت (اکتوبر۱۹۳۰ء تا اپریل ۱۹۳۱ء)سے متعلّق ہے۔ جبکہ ایسا درست نہیں یہ دوسرا واقعہ بھی میانوالی جیل کے زمانۂ قید(مارچ ۱۹۲۱ء تا اکتوبر ۱۹۲۳ء) میں ہی پیش آیا۔ حضرت ابنِ امیرِ شریعت مولانا سید عطاء المؤمن بخاری مد ظلہ نے خود لسانِ امیرِ شریعت سے اس وا قعے کو ایسے ہی سنا، اسی طرح بنتِ امیرِ شریعت سیدہ امِّ کفیل بخاری رحمہا اﷲ نے اپنی شاہکار کتاب ’’سیدی و ابی‘‘ میں بھی اس کو میانوالی جیل میں ہی پیش آمدہ بتا یا ہے۔(مدیر)
میں دنیا میں ایک چیز سے محبت کرتا ہوں اور وہ ہے قرآن ، مجھے صرف ایک چیز سے نفرت ہے اور وہ ہے انگریز۔ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے تجربوں اور مشاہدوں نے میرے ان دو جذبوں میں بلا کی شدت اور حرارت پیدا کر دی ہے۔ محبت اور نفرت کے یہ دو زاویے ایسے ہیں کہ جن دماغوں میں ان کا سودا ہو، اُن کے لیے پابہ زنجیر ہندوستان میں جیل خانہ زندگی کے سفر کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں کبھی طلب کے خیال سے رکنا پڑتا ہے، کبھی فرض کی کشا کش لے آتی ہے‘ کبھی جستجوئے منزل کا تقاضا پہنچا دیتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ اب جیل خانے کی ’’آبرو پربوا لہوسوں نے پیش دستی شروع کی ہوئی ہے۔ع
جو بادہ کش تھے پُرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں!
لیکن ۲۲ء کی تحریکِ خلافت کے زمانۂ قید پر غور کرتا ہوں تو نگاہوں میں ایک تصویر سی کھنچ جاتی ہے۔ میانوالی کی ڈسٹرکٹ جیل، احباب کی ایک یادگار بزم…… سب اہل ذوق‘ اہل نظر‘ اہل دل اور اہل علم جمع تھے۔ مولانا احمد سعید دہلوی حدیث پڑھایا کرتے۔ عبدالمجید سالک دربار اکبری کا سبق دیتے، مولوی لقاء اﷲ کی نپی تلی باتیں گفتگو میں رس پیدا کرتیں۔ صوفی اقبال پانی پتی کے ’’اشقلے ‘‘ خدا کی پناہ! مولوی عبداﷲ چوڑی والے (دہلوی) کی ٹکسالی گالیاں تبرک کی طرح تقسیم ہوتیں اور آصف علی کھلتے تو پھولوں کے تختے بچھ جاتے۔ جی خوش کرنے کے لئے مشاعروں کا اہتمام ہوتا، شاعر طرحی اور غیر طرحی کلام سناتے،کبھی سالکؔ صدر ہوتا کبھی آصف اور کبھی:’’قرعۂ فال بنامِ من دیوانہ زدند!‘‘
اختر علی خاں نے ایک دفعہ معرکے کی غزل سنائی‘ سب لوٹ پوٹ ہو گئے میرا ماتھا ٹھنکا‘ کچھ یاد سا آ گیا۔ میں نے اختر سے کہا میاں مقطع کہو، وہ کسی قدر جھینپا اور کہا کہ:’’ ابھی ہوانہیں‘‘ میں نے کہا تو لو…… پھر مجھ سے سنو! مقطع تھا:
جو مے کشی سے ہو فرصت تو دو گھڑی کو چلو                                امیرؔ مسجد جامع میں آج امام نہیں
سب ششدر رہ گئے ارے امیرؔ مینائی کی غزل اُڑا لی‘ سوالات کی ایک بوچھاڑ ہونے لگی‘ اختر علی خاں مقطع کے ساتھ ہی بزم سے غائب ہو گئے۔ دو دن روٹھے رہے، تیسرے دن بہ مشکل راضی کیا گیا ۔ امیرؔ مینائی کا دیوان اُن کے تکیے تلے رکھا تھا، میں نے اُٹھایا تو غزل کا صفحہ ہی پھٹا ہوا تھا۔
جب طبیعت ذرا اور شگفتہ ہوتی تو اختر علی خان گھڑا بجاتے، صوفی اقبال مرحوم تالی پیٹتا، داؤد غزنوی ’حال کھیلتے‘ کبھی اختر گاتا، کبھی سالک، کبھی عاجز اورکبھی تینوں، وہ رنگ بندھتا کہ در و دیوار جھومتے اور کائنات بھی جھک کر گوش بر آوا زہو جاتی۔
اب کہاں لیکن وہ رنگا رنگ بزم آرائیاں                        یعنی سب نقش و نگارِ طاق نسیاں ہو گئیں
ہم میں سے کوئی رِہا ہوتا تو سب بچوں کی طرح روتے، بلکتے اور بادلِ نخواستہ الوداع کہتے۔ مولانا احمد سعید رہا ہونے لگے تو ان کی گھگی بندھ گئی۔ آنسوؤں کے تاروں سے نغمہ جدائی پھوٹ رہا تھا۔ اس قید کے علاوہ اور بھی کئی بار قید ہوئے لیکن وہ رنگ کبھی پیدا نہ ہوا۔
پنجاب کی تو تقریباً سب جیلیں دیکھی بھالی ہیں لیکن ۱۹۳۰ء میں ڈم ڈم جیل کلکتہ کی زیارت بھی ہو گئی ۔ وہاں افسروں سے ایسی ٹھنی رہی کہ رہائی تک اکھاڑہ جما رہا۔ دوست زندانی مصائب سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں اور میں عیب۔ یہ اپنا اپنا زاویۂ نظر ہے، میں ان مصیبتوں کو رسوا کرنے کا عادی نہیں۔ میرے لیے جیل خانہ صرف نقل مکانی ہے۔ اپنے گرد و پیش باغ و بہار فراہم کر لیتا ہوں اور قید یوں گذر جاتی ہے جیسے صحراؤں سے بادل جب میں پہلی بار جیل خانے کی چار دیواری کے اندر داخل ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ سلطنت افرنگ بھی زلیخا زادیوں کے ہتھکنڈوں سے استوار ہوئی ہے۔ میرا درد تھا، رَبّ السِّجْنُ اَحَبُ اِلِیَّ مِمَّاَ یَدْ عُونَنِیُ اِلَیْہ۔ ’’اے رب مجھے قید زیادہ پسند ہے اس بات سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں‘‘
ایک شب جیل خانے میں سورۃ یوسف کی تلاوت کر رہا تھا۔ چودھویں رات کا چاند آسمان پر جگمگا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ قراء ت کی تاثیر میں ڈوب کر ٹھہر گیا۔ ایک گھنٹہ اسی تلاوت میں گزر گیا۔ اتنے میں پنڈت رام جی لال سپرنٹنڈنٹ جیل نے پیچھے سے پکارا۔ دیکھا تو وہ کھڑا ہے اور رُخسار اس کے آنسوؤں سے تر ہیں۔ کہنے لگا شاہ جی خدا کیلئے بس کرو میرا دل قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ اب مجھ میں رونے کی سکت نہیں۔ اﷲ اﷲ یہ قرآن کی تلاوت کا اعجاز تھا۔
ایک دن گورنمنٹ آف انڈیا کا برطانوی نژاد ہوم ممبر معائنے کیلئے آن پہنچا۔ میں بیٹھا ہوا کوئی کتاب دیکھ رہا تھا مجھ سے مخاطب ہو کر بولا:’’کہیے شاہ جی آپ اچھے ہیں؟‘‘۔ میں نے کہا: ’’خدا کا شکر ہے‘‘۔دوبارہ پوچھا: ’’کوئی سوال؟‘‘
’’میں صرف اﷲ سے سوال کیا کرتا ہوں۔‘‘ یہ میرا جواب تھا۔
’’نہیں میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’جی ہاں! آپ میرا ملک چھوڑ کر چلے جائیے‘‘ ۔وہ فوراً لوٹ گیا۔
اس واقعے کو ۲۵ برس گزر چکے ہیں اور ربع صدی کے بعد انگریز خود کہہ رہا ہے کہ وہ جا رہا ہے جب وہ یہاں رہنے پر مُصر تھا تو ہندوستان جیل خانہ تھا اب وہ جانے کا اعلان کر رہا ہے تو ہندوستان آتش کدہ ہے۔
کہ ہم نے انقلابِ چرخ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں
میرے عقیدے میں اب بھی دو ہی چیزیں ہیں۔’’قرآن کی محبت اور انگریز سے نفرت‘‘
امیر مینائی کے مذکورہ بالا مقطع کی مکمل غزل یہ ہے۔لیجئے اپنے شعری ذوق کے لطف کو دوبالا کیجئے:
فراق یار میں شب ہو کہ دن تمام نہیں                                    جو اس کی صبح نہیں ہے تو اس کی شام نہیں
ملی ہے دخترِ رز لڑ جھگڑکے قاضی سے                                           جہاد کر کے جو عورت ملے حرام نہیں
وہ گالی دیتے ہیں شکوہ کرو تو کہتے ہیں                                             کسی کا ذکر نہیں ہے کسی کا نام نہیں
یہاں کمالِ تواضع وہاں کمالِ غرور                                    اِدھر ہیں سجدے پہ سجدے اُدھر سلام نہیں
گِرہ سے کچھ نہیں جاتاہے پی بھی لے زاہد                                      ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
فقیر گوشہ نشیں ہیں خدا کے درباری                                              کسی امیر کا مُجرا نہیں سلام نہیں
زمانے بھر میں پڑی ہے پکار حاتم کی                                      دیا ہے جس نے کہ حاتم کو اُس کا نام نہیں
کہا جو میں نے کہ رُخ سے کبھی نقاب اُلٹو                                            تو ہنس کے بولے کہ منظور قتلِ عام نہیں
یہ داغ کیوں ہے رخِ ماہتاب پرانے چرخ                                                جو میرے یار کا بھاگا ہوا غلام نہیں
کریم جان کے تجھ کو خطائیں کیں یارب                                                      مرے گناہ سزاوارِ انتقام نہیں
جو مے کشی سے ہو فرصت تو دو گھڑی کو چلو                                              امیرؔ مسجدِ جامع میں آج امام نہیں
میانوالی جیل کا ایک اور دلچسپ واقعہ
(بہ زبانِ امیرِ شریعت رحمہ اﷲ بروایت ابنِ امیرِ شریعت حضرت مولانا سید عطاء المؤمن بخاری دام مجدہ)
پہلی قید کااکثر حصہ میانوالی جیل میں گزرا،قید و بند کا یہ عرصہ جیل خانہ ہوتے ہوئے انتہائی خوشگواربلکہ پُر بہارو یادگارگزرا۔تمام اسیر آزادی پسند رہنماتھے۔ادب شعروسخن کے شناور،دلدادہ،سخن ساز،سخن فہم بھی تھے اور حسِ ظرافت سے مالا مال تھے۔خوب محفلیں جمتیں۔ملکی وقومی مسائل کے حل کیلئے حکمت و تدبر کے موتی بکھیرے جاتے۔وہاں مشاعرے اور شعرو سخن کی محفلیں بھی برپا ہوتیں۔ایک مرتبہ میں نے ایک عالم دین(غالبًاحضرت تھانوی رحمہ اﷲ)کے وعظ کا واقعہ سنایا جس میں نام بگاڑنے اور چڑنے چڑانے کی مذمت پر بیان فرمایا گیاتھا۔مولانا نے وعظ میں فرمایاکہ:’’نام بگاڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔اس سے معاشرتی،سماجی رویوں میں کشیدگی پیداہوتی ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی نام بگاڑے یاکسی کو چڑائے تو اُسے چڑنا نہیں چاہیے‘‘۔مولاناکے اس وعظ و نصیحت پر مبنی بیان کے مجمع میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب جو غالباًتحصیلدار تھے اُنہوں نے تکرارکے ساتھ دو تین مرتبہ چڑنے ،چڑانے کی اس نصیحت سے متعلق کہا کہ:۔’’ہاں صاحب اگر کوئی کسی کو چڑاتا ہے تو بالکل نہیں چڑنا چاہیے۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ کوئی کسی کوچڑائے اور وہ چڑ جائے، مولانا بالکل صحیح فرما رہے ہیں کہ نہیں چڑنا چاہیے۔‘‘تحصیل دارکے ساتھ ہی ایک منچلا بیٹھا تھااِس اندازِتائید پراُس کی رگِ ظرافت کے ساتھ ساتھ رگِ شرارت بھی پھڑک اُٹھی اُس نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ بالکل قطعًانہیں چڑنا چاہیے۔ اس منچلے آدمی نے وعظ کے اُسی مجمع میں تحصیلدار صاحب سے انتہائی سنجیدگی اور متانت سے پوچھاکہ:’’ آپ کے ہاں شلجم کا اچار ہوگا ؟‘‘ تحصیلدارنے بڑے آرام سے جواب دیا:’’نہیں بھائی ہمارے ہاں شلجم کا اچار نہیں ہے۔‘‘دس منٹ کے بعداُس منچلے نے پھرمتانت سے بھرپورچہرے کے ساتھ اپنا وہی سوال دہرایا۔تحصیلدارصاحب!میں نے عرض کیا تھاکہ آپ کے ہاں شلجم کا اچار ہے؟اب تحصیلدارصاحب کچھ تھوڑی سی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بولے :’’بھائی عجیب آدمی ہوایک بار کہہ دیا کہ نہیں ہے تو دوبارہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔؟‘‘اب کے اس آدمی نے وقت کو کم کر کے پانچ منٹ کے بعدوہی سوال دہرایا۔اب تحصیلداربگڑ کر بولے کہ:’’ عجیب بد تمیز آدمی ہوایک بار دو بار کہاہے۔خاموش رہو اور وعظ سنو‘‘۔ اب منچلا بھی سمجھ گیاکہ تیر نشانے پر بیٹھ گیا ہے۔دو منٹ کے بعداپنے سوال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یقینی صورتِ حال کے پیشِ نظراپنے جوتے ہاتھ میں لیے ۔اُس نے اپنا وہی سوال پھر دہرایاکہ:’’ تحصیلدار صاحب !آپ کے ہاں شلجم۔۔۔۔‘‘ابھی اتنا ہی کہ پایاتھاکہ تحصیلدارآپے سے باہر ہوگئے کہ عجیب بدتمیزوغیرہ وغیرہ جو منہ میں آیاکہہ ڈالا اور اسکی طرف مارنے کے لیے لپکے۔ وہ آدمی شلجم کا اچار،شلجم کا اچارکہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا،وہ آگے آگے اورتحصیلدار صاحب پیچھے پیچھے۔مجمع میں اچھا خاصاانتشار پیدا ہوااور لوگ وعظ سننے کی بجائے اس تماشے کو دیکھ کرہنستے مسکراتے رہے۔وہ منچلا نوجوان تحصیلدار صاحب کے محلہ اور مکان سے بھی واقف تھا۔دوسرے دن علی الصبح وہ ان کے محلہ میں پہنچااور محلے کے بچوں کو کچھ پیسے دے کربہلا پھسلا کر اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے گھروں سے کٹوریاں ،کٹورے لا کر تحصیلدار کے گھر کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور جیسے ہی وہ گھر سے نکلیں تو سب بچے بیک آوازشلجم کے اچار کا نعرہ بلند کریں۔اب جیسے ہی تحصیلدار صاحب سر پر کلے دارپگڑی اور بدن پر اچکن سجائے اورچمکتی جوتی کے ساتھ دروازے سے باہر نکلے توبچوں نے بیک آوازشلجم کے اچار کا نعرہ بلند کیا۔ تحصیلدار صاحب بِھنّاگئے،اُن کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ میں کیا کروں،کیا کہوں اور کیا نہ کہوں وہ بچوں کو گالیاں دیتے ہوئے واپس گھر گئے اوردروازے کو زور سے بند کر دیااور اندر سے کنڈی لگا دی۔پھر پورے علاقے میں شلجم کا اچار ان کی چڑ بن گئی۔اس سے تنگ آکروہ مکان کے ساتھ ساتھ محلہ بھی چھوڑ گئے۔
یہ واقعہ میں نے اپنے جیل کے ساتھیوں کو سنایا ،سب نے سنا ۔یہ تھا چڑنے کا انجام۔غالبًا دوسرا دن تھامیں جیل کی اپنی کوٹھڑی میں بیٹھاکوئی کتاب پڑھ رہا تھاکہ اتنے میں مولانا داؤدغزنوی آئے اور شاہ جی کہہ کر مجھے بلایا،میں ان کی طرف متوجہ ہوا،انہوں نے شہادت کی انگلی پر انگوٹھارکھتے ہوئے پوچھا:’’آپ کے پاس پِن ہوگی؟‘‘میں نے انتہائی آرام سے جواب دیا :’’نہیں مولانا!میرے پاس پن نہیں ہے‘‘وہ واپس چلے گئے۔تھوڑی دیر کے بعد اخترعلی خان آئے اور انہوں نے بھی اُسی طرح مجھے بلا کر پوچھا :’’شاہ جی آپ کے پاس پِن ہوگی؟‘‘اِس پر میرا ماتھا ٹھنکاکہ کل کے سنائے ہوئے واقعہ کا مجھ پر تجربہ کیا جارہا ہے۔میں سمجھا ہو نہ ہویہ شرارت عبدالمجیدسالک کی ہے۔اب یکے بعدیگرے دو تین اور احباب آئے اور انہوں نے یہی سوال کیا،لیکن میں نے انہیں تلخی میں آئے بغیر استفہامیہ اندازمیں جواب دیا:’’کہ نہیں میرے بھائی !میرے پاس پِن نہیں ہے۔‘‘اب میں انتظارمیں تھا کہ سالکؔ آئے اور اُسے میں صحیح جواب دوں،کہ اتنے میں سالکؔ آگیااور اُس نے جیسے ہی سوال کیا کہ:’’شاہ جی آپ کے پاس پِن ہوگی؟‘‘تو میں کوٹھڑی سے باہر آگیا اور سالکؔ کے ساتھ باقی احباب جو باہر کھڑے تھے سب کو مخاطب کر کے کہا :’’کیوں کیا بات ہے؟کہ باری باری مجھ سے پِن مانگنے آتے ہو، کیاتم سب کے بخیے اُدھڑگئے ہیں؟۔‘‘اس پر سالکؔ کھسیانا سا ہو کر جیسے پیچھے ہٹا،تو باقی حضرات جو اِس انتظارمیں تھے کہ میں مشتعل ہو کر باہر نکلوں اور وہ پِن پِن کا شور مچا کر مجھے چِڑانے کی سالکیؔ سازش میں کامیاب ہوجائیں، ان سب نے با آوازِ بلند قہقہہ بلند کیا۔
یہ واقعہ ابا جی رحمۃاﷲعلیہ سے میانوالی جیل کے حوالے سے کئی بار سنا۔لیکن افسوس !!کہ سالک نے اپنی کتاب’’یارانِ کہن‘‘میں اس واقعہ کے آخری حصہ کو انتہائی نا درست اندازمیں پیش کیا ہے۔اوراس سے بڑھ کر آغا شورش کاشمیری مرحوم نے بھی اپنی کتاب’’سید عطاء اﷲ شاہ بخاری‘‘میں اس واقعہ کو سالکؔ کی بیان کردہ مکذوبہ روایت پر ہی اعتماد کر کے شائع کیااور اس واقعہ کی حقیقت جاننے کے لئے حضرت امیرشریعت سے رجوع نہیں کیا۔عبدالمجیدسالکؔ اپنی شخصیت میں نا پائیدار قسم کے آدمی تھے، حضرت امیرِ شریعت سے بھی تعلقِ خاطر تھا اورمرزائی نوازی کا معاملہ بھی کبھی مخفی کبھی ظاہر چلتا رہتا تھا۔ اپنی سوانح حیات میں خود لکھا کہ میرے والد احمدی تھے اور ان کے مرزا بشیرالدین محمود کے ساتھ خاص تعلقات تھے، وہ ہمارے گھرگرمی کے موسم میں لازمی طور پر اپنے باغات کے آموں کے ٹوکرے بھیجا کرتے تھے۔ شورش مرحوم چونکہ صحافی تھے اس لئے اُن کی کتاب’’ سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری، سوانح وافکار‘‘ تحقیق و تدوین کے بجائے ایک صحافیانہ تبصرہ کے درجے کی کتاب ہے۔ورنہ جانا جاسکتا ہے کہ جو شخص پاکیزہ کردار، پاکیزہ زبان و کلام کا حامل ہو، جس کی زندگی کھلی کتاب ہو،دشمن بھی جس کو خراجِ تحسین دیے بغیر نہ رہ سکے،جس کی گفتگو سے پون صدی تک ہندوستان کے طول وعرض میں مختلف الخیال،مختلف رنگ و نسل و مذاہب ،اقوام و ملل کے لوگ دیوانہ وار متاثر ہوئے اور اُن کے انتقال کو پچپن برس گزرجانے کے باوجود آج بھی لوگوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتازندہ جاوید ہے۔اس کی زبان سے مغلظات ؟چہ معنی دارد۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.