تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عیدالفطر

مولاناابوالکلام آزادرحمۃ اﷲ علیہ

فقیرنے یہ تحریر مولاناابوالکلام آزادؒکے عیدالفطرکے حوالے سے لکھے جانے والے ایک منفرد مضمون میں سے منتخب کی ہے۔اس میں عمومی تحریروں کی طرح عیدکے فضائل ومسائل نہیں بیان کیے گئے۔ مختصراًکہاجائے تویہ تحریرامت مرحومہ کو اس کا بھولاسبق یاددلاتی ہے اوراس کاحرف حرف دعوت فکرکہن دیتاہے۔اس کاعنوان گوسادہ ساہے لیکن مولاناآزادؒکے فکراورخاص داعیانہ اندازنے اس کو وہ رنگ دیاہے کہ جیسے جیسے پڑھتے جاؤ دل ودماغ کی دنیامیں ہلچل پیداہوجاتی ہے۔غرض اس تحریرسے عیدکا حقیقی معنیٰ ومفہوم سمجھ میں آتاہے۔ اور بندۂ حقیرنے تو مولاناؒکی اس تحریرسے ہی اس جشنِ ملّی کی حقیقت کوسمجھاہے اوراسی حقیقت کوآپ تک پہنچانے کے لیے اس کا انتخاب کیاہے۔دعا ہے کہ رب کریم قارئین کواس کے مطالب مطلوب تک لے جائے۔ مولاناؒ کی قبر منورفرمائے اوران کے درجات بلندفرمائے۔آمین یارب العالمین۔ (عطاء اﷲ ثالث)
دنیا کی ہرقوم کے لیے سال بھر میں دوچار دن ایسے ضرورآتے ہیں جن کو وہ اپنے کسی قومی جشن کی یادگارسمجھ کرعزیزرکھتی ہے،اورقوم کے ہرفردکے لیے ان کاورودعیش ونشاط کادروازہ کھول دیتاہے۔مسلمانوں کاجشن اورماتم،خوشی اورغم،مرنااورجینا،جوکچھ تھاخداکے لیے تھا۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔(سورۃ الانعام:۱۶۲۔۱۶۳)
کہہ دے کہ میری نماز، میری تمام عبادت،میرامرنا،میراجیناجوکچھ ہے اﷲ کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا پروردگار ہے ،اور جس کا کوئی شریک نہیں، مجھ کوایسا ہی حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں پہلا مسلمان ہوں۔
اوروں کاجشن ونشاط لذائذ دنیوی کے حصول اورخواہشوں کی کام جوئیوں میں تھا،مگران کے ارادے مشیت الٰہی کے ماتحت،اورخواہشیں رضائے الٰہی کی محکوم تھیں،ان کے لیے سب سے بڑا ماتم یہ تھا کہ دل اس کی یاد سے غافل اورزبان اس کے ذکر سے محروم ہوجائے اور سب سے بڑا جشن یہ تھا کہ سر اس کی اطاعت میں جھکے ہوں اورزبان اس کی حمدوتقدیس سے لذت یاب ہو
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْابِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْن۔ تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا۔(سورۃ السجدہ:۱۵۔ ۱۶)
ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لائے ہیں کہ جب ان کو وہ یاد دلائی جاتی ہیں تو سجدے میں گرپڑتے ہیں اوراپنے پروردگارکی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے ہیں،اوروہ کسی طرح کاتکبروبڑائی نہیں کرتے۔رات کو جب سوتے ہیں توان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اورامید وبیم کے عالم میں کروٹیں لے کراپنے پروردگارسے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔
ان کو پیش گاہ الٰہی سے طاعت وشکرگذاری کے جشن کے لیے دودن ملے تھے۔پہلا دن عیدالفطر کاتھا۔یہ اس ماہ مقدس کے اختتام اورافضال الٰہی کے دورجدیدکے اولین یوم کاجشن تھا جس میں سب سے پہلے خداتعالےٰ نے اپنے کلام سے ان کو مخاطب فرمایا:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ۔(سورۃ البقرہ: ۱۸۵)
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن مجیداول اول نازل کیاگیا۔
اسی مہینے کے آخری عشرے میں سب سے پہلے انہیں وہ نورصداقت اورکتاب مبین دی گئی، جس نے انسانی معتقدات واعمال کی تمام ظلمتوں کودورکیا،اورایک روشن اورسیدھی راہ دنیا کے آگے کھول دی۔
قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ۔(سورۃ المائدہ:۱۵۔۱۶)
بے شک خدا کی طرف سے تمہارے پاس(قرآن)ایک روشنی اورکھلی کھلی ہدایت بخشنے والی کتاب بھیجی گئی اﷲ اس کے ذریعے اپنی رضا چاہنے والوں کو سلامتی کی راہوں پر ہدایت کرتاہے۔
انسانی ضمیرکی روشنی،جب کہ ظلمت اورضلالت سے چھپ گئی تھی،فطرت کے حسن اصلی پرجب انسان نے بداعمالیوں کے پردے ڈال دیے تھے،قوانین الٰہی کا احترام دنیا سے اٹھ گیا تھا،اورطغیان وسرکشی کے سیلاب میں خداکے رسولوں کی بنائی ہوئی عمارتیں بہہ رہی تھیں
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ۔(سورۃ الروم: ۴۱)
خشکی اورتری،دونوں میں انسانوں کے اعمال بد کی وجہ سے فساد پھیل گیا۔
اس وقت یہ پیغام صداقت دنیا کے لیے نجات اورہدایت کی ایک بشارت بن کر آیا،اس نے جہل وباطل پرستی کی غلامی سے دنیا کودائمی نجات دلائی۔افضال ونعائم الٰہیہ کے فتح باب کامژدہ سنایا،نئی عمارت گوخودنہیں بنائی مگرپرانی عمارتوں کو ہمیشہ کے لیے مضبوط کردیا،نئی تعلیم گونہیں لایا،لیکن پرانی تعلیموں میں بقائے دوام کی روح پھونک دی،مختصریہ ہے کہ فطرت اورنوامیس فطرت کی گم شدہ حکومت پھرقائم ہوگئی۔
فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(سورۃ الروم: ۳۰)
یہ خدا کی بنائی ہوئی سرشت ہے جس پر خدانے انسان کو پیداکیاہے۔خداکی بنائی ہوئی بناوٹ میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔یہ(راہ فطرت)دین کا سیدھا راستہ ہے،مگر اکثر آدمی ہیں جونہیں سمجھتے۔
یہی مہینہ تھا،جس میں دنیاکے روحانی نظام پر ایک عظیم الشان انقلاب طاری ہوا،اسی مہینے میں وہ عجیب وغریب رات آئی تھی،جس نے اس انقلاب عظیم کاہمیشہ کے لیے ایک اندازہ صحیح کرکے فیصلہ کردیاتھا،اوراس لیے وہ لیلۃالقدرتھی۔اس کی نسبت فرمایا کہ وہ گذشتہ رسولوں کے ہزارمہینوں سے افضل ہے،کیونکہ ان مہینوں کے اندردنیاکوجوکچھ دیاگیاتھا۔ وہ سب کچھ مع خداکی نئی نعمتوں اور عطاکردہ فضیلتوں کے اس رات کے اندربخش دیاگیا
اِِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۔لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۔(سورۃ القدر:۱،۲،۳)
قرآن کریم نازل کیاگیالیلۃ القدرمیں اورتم جانتے ہوکہ لیلۃ القدرکیاہے؟وہ ایک ایسی رات ہے جودنیاکے ہزارمہینوں پرافضلیت رکھتی ہے۔
یہی رات تھی،جس میں ارض الٰہی کی روحانی اورجسمانی خلافت کاورثہ ایک قوم سے لے کر دوسری قوم کودیاگیا۔اوریہ اس قانون الٰہی کے ماتحت ہواجس کی خبرداؤدعلیہ السلام کودی گئی تھی
وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنمْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔(سورۃ الانبیاء: ۱۰۵)
اورہم نے زبورمیں پندونصیحت کے بعدلکھ دیاتھاکہ بے شک زمین کی خلافت کے ہمارے صالح بندے وارث ہوں گے۔
اس قانون کے مطابق دوہزاربرس تک بنی اسرائیل زمین وراثت پرقابض رہے،اورخدانے ان کی حکومتوں،ان کے ملکوں،اوران کے خاندان کوتمام عالم پرفضیلت دی
یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔(سورۃ البقرہ:۴۷)
اے بنی اسرائیل!ان نعمتوں کویادکرو،جوہم نے تم پرانعام کیں،اور(نیز)ہم نے تم کو(اپنی خلافت دے کر)تمام عالم پرفضیلت بخشی۔
یہی مہینہ اوریہی لیلۃ القدرتھی،جس میں اس الٰہی قانون کے مطابق نیابت الٰہی کاورثہ بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کوسپردکیاگیا۔وہ پیمان محبت جوخداوندنے بیابان میں اسحاق ؑسے باندھاتھا،وہ پیغام بشارت جویعقوبؑ کے گھرانے کوکنعان سے ہجرت کرتے ہوئے سنایاگیاتھا،وہ الٰہی رشتہ جوکوہ سیناکے دامن میں خدائے ابراہیمؑ واسحاق ؑنے بزرگ موسیٰؑ کی امت سے جوڑا تھا۔اورسرزمین فراعنہ کی غلامی سے ان کو نجات دلائی تھی۔خدا کی طرف سے نہیں بلکہ خود ان کی طرف سے توڑ دیاگیا۔داؤد ؑکے بنائے ہوئے ہیکل کادورعظمت ختم ہوچکاتھا۔اوروہ وقت آگیاتھاکہ اب اسماعیل ؑکی چنی ہوئی دیواروں پرخداکاتخت جلال وکبریائی بچھایاجائے۔یہ نصب وعزل،عزت وذلت،قرب وبعد،اورہجرووصال کی رات تھی،جس میں ایک محروم اوردوسراکامیاب ہوا،ایک کودائمی ہجرکی سرگشتگی،اوردوسرے کوہمیشہ کے لیے وصل کی کامرانی عطاکی گئی،ایک کابھراہوادامن خالی ہوگیا،مگردوسرے کی آستین افلاس بھردی گئی،ایک پرقہروغضب کاعتاب نازل ہوا،
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ۔(سورۃ البقرہ: ۶۱)
بنی اسرائیل کو(ان کی نافرمانیوں کی سزامیں)ذلت اورمحتاجی میں مبتلاکردیاگیا۔اوراﷲ کے بھیجے ہوئے غضب میں آگئے۔
لیکن دوسرے کواس محبت کے خطاب سے سرفرازکیا
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۔(سورۃ النور: ۵۵)
تم میں سے جولوگ ایمان لائے اورعمل میں بھی اچھے کیے خداکاان سے وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت بخشے گاجس طرح ان سے پیشترقوموں کواس نے بخشی تھی۔
یہ اس لیے ہوا کہ زمین کی وراثت کے لیے’’عِبَادِیَ الْصَّاْلِحُوْنَ‘‘کی شرط لگادی تھی۔بنی اسرائیل نے خداکی نعمتوں کی قدرنہ کی،اس کی نشانیوں کوجھٹلایا،اس کے احکام سے سرتابی کی،اس کی بخشی ہوئی اعلےٰ نعمتوں کو اپنے نفس ذلیل کی بتائی ہوئی چیزوں سے بدل دیناچاہا
اَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ۔(البقرہ: ۶۱)
خداکی دی ہوئی اعلیٰ نعمتوں کے بدلے تم ایسی چیزوں کے طالب ہوجوان کے مقابلے میں نہایت ادنیٰ ہیں۔
خدائے قدوس کی زمین کثافت اورگندگی کے لیے نہیں ہے،وہ اپنے بندوں میں سے جماعتوں کو چن لیتاہے۔تاکہ اس کی طہارت کے لیے ذمہ دارہوں لیکن جب خود ان کاوجود زمین کی طہارت ونظافت کے لیے گندگی ہوجاتاہے تو غیرت الٰہی اس بارآلودگی سے اپنی زمین کوہلکاکردیتی ہے۔بنی اسرائیل نے اپنے عصیان وتمرد سے ارض الٰہی کی طہارت کوجب داغ لگادیا،تواس کی رحمت غیورنے کوہ سینا کے دامن کی جگہ بوقبیس کی وادی کو اپنا گھربنایااورشام کے مرغزاروں سے روٹھ کرحجاز کے ریگستان سے اپنارشتہ قائم کیا،تاکہ آزمایاجائے کہ یہ نئی قوم اپنے اعمال سے کہاں تک اس کی منصب کی اہلیت ثابت کرتی ہے؟
ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْم بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْن۔(سورۃ یونس: ۱۴)
اوربنی اسرائیل کے بعدہم نے تم کوزمین کی وراثت دی تاکہ دیکھیں کہ تمہارے اعمال کیسے ہوتے ہیں؟
پس یہ مہینہ بنی اسرائیل کی عظمت کااختتام،اورمسلمانوں کے اقبال کاآغازتھا،اوراس نئے دوراقبال کاپہلامہینہ شوال سے شروع ہوتاتھا،اس لیے اس کے یوم ورودکوعیدالفطرکاجشن ملی قراردیاگیا،تاکہ افضال الٰہی کے ظہوراورقرآن کریم کے نزول کی یادہمیشہ قائم رکھی جائے اور اس احسان واعزازکے شکریے میں تمام ملت مرحومہ اس کے سامنے سربسجودہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.