تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سیاسی اشرافیہ اوربیوروکریسی کاکڑا اِحتساب

ڈاکٹرعمرفاروق احرار

اطلاعات کے مطابق رواں برس عام انتخابات ہونے سے پہلے نیب اور حساس اداروں نے قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین کے اثاثوں کی چھان بین شروع کردی ہے۔جبکہ صوبائی حکومت کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں پر تحقیقات کا آغازکردیاگیاہے۔ذرائع کے مطابق ابھی ابتدائی چھان بین ہورہی ہے،تاہم انتخابات سے پہلے ہی باقاعدہ کارروائی کا آغازکرکے تحقیقات کا سامناکرنے والے اراکین پارلیمنٹ کوطلب بھی کیاجاسکتاہے۔نیب کی تحقیقات کا دائرہ کاردیگرمحکمہ جات تک پھیلنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ہاؤسنگ کالونیوں ،نیزبیرون ملک جائیداد یں بنانے اور منی لانڈرنگ کرنے والے وزرا،ارکان اسمبلی اور اعلیٰ بیورو کریٹس کے خلاف اہم ثبوت اکٹھے کر لیے گئے ہیں ۔قومی اخبا ر میں فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق جن افراد کے خلاف نیب کارروائی چاہ رہی ہیں اُن میں 6سابق اعلیٰ افسران شامل ہیں، جن کا تعلق اہم ترین اداروں سے بتایاجاتا ہے،جبکہ 3وفاقی وزیر ،6سابق وزرا اور 12اعلیٰ پولیس افسران بھی شامل ہیں ،جن کے خلاف ثبوت اکٹھے کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے ۔ان تمام لوگوں نے بے نامی جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور مذکورہ وزراء نے مختلف کمپنیوں میں سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے ۔ذرائع کے مطابق اس حوالے سے نیب نے کافی حد تک ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں، چند دنوں میں نیب کی جانب سے 3 وفاقی وزراء کو نوٹس بھی ملنے کا امکان ہے۔
ہمارا اِنتخابی نظام جن بنیادوں پر اُستوار کیا گیا ہے، اُس میں نیچے سے اوپر تک کرپشن اور اقربا پروری کے بارہ مسالے کُوٹ کُوٹ کر اِستعمال میں لائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس ٹکسال سے جو بھی سکہ ڈھل کر نکلتا ہے، وہ سیر نہیں سوا سیر کا ہوتا ہے۔ انہی خصوصیات کی بدولت کمزور نظام والے ملکوں میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ جمہوری نظام کو ضعف و اضمحلال سے دو چار کرنے والا وہی نسل در نسل اقتدار پر ست مافیا ہے جو سرمایہ پرستوں، رسہ گیروں، بلیک مارکیٹرز، ٹارگٹ کلرز اور قبضہ گروپوں پر مشتمل ہے اور اِس ملک پر ستر برس سے مسلط ہے۔ وہ پاکستان کے سیاسی نظام کو شفافیت کی راہ پر چلنے ہی نہیں دیتا۔نتیجہ یہ ہے کہ جمہوری ڈھانچہ تنزل اوراَبتری کی دلدل میں تیزی کے ساتھ گرتا جا رہا ہے۔ چپڑاسی کے تقررکے لیے میرٹ ،کلرک کی تعیناتی کے لیے قابلیت،حتیٰ کہ ڈرائیورکے لیے ٹیسٹ اوراِنٹرویو ضروری ہے، مگر اَسمبلی اور سینٹ کا رُکن بننے کے لیے کسی تعلیم ،تجربہ،مہارت ،قابلیت،شخصی اوصاف اورذہانت کی ہرگزضرورت نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے والے دھکے کھاتے ہیں اورپرائمری اورمڈل فیل اسمبلیوں کی رکنیت پاتے ہیں۔ ہمارے اصلی حکمرانوں کو قابل افرادکی بجائے ایسے ہی بھانڈوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو اُن کے اقتدارکی مضبوطی کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کردکھائیں۔ایسے نورَتن ہی شاہی دربارمیں مسندکے مستحق ٹھہرتے ہیں اورحق گوئی کرنے والوں کا مقدر گوالیار کے قلعہ کا قیدخانہ ہوتاہے۔
بوگس اورجعلی ووٹوں پر بننے والے نمائندوں سے عوامی نمائندگی کی توقع دیوانے کاخواب ہے۔جو شخص لاکھوں روپے میں پارٹی ٹکٹ خریدکر اورکروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ کرکے اسمبلی میں پہنچتاہے۔وہ عوامی نمائندگی نہیں کرے گا، بلکہ اپنا پیٹ ہی بھرے گا۔ کبھی ترقیاتی فنڈزکے نام پردولت اورکبھی پارٹی سے وفاداری کے صلے میں بھاری رقمیں اُس کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ کروڑوں کے قرضے معاف ہوتے ہیں اوراُن کی منڈلیاں کرپشن کی انتہا اورہارس ٹریڈنگ کرنے کے باوجود این آراوکے ذریعے پھر مقدس گائے کا درجہ پالیتی ہیں۔یہ کرپٹ انتخابی نظام ہی ہے جو سینٹ کے امیدوار کو پندرہ لاکھ، قومی اسمبلی کے امیدوارکوچالیس لاکھ اورصوبائی اسمبلی کے امیدوارکو بیس لاکھ روپے کی انتخابی مہم چلانے کی قانونی اجازت دیتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ اخراجات کروڑوں کی حدوکو چُھولیتے ہیں۔اِس سرمایہ داری نظام میں کسی غریب کے لیے انتخابات لڑنا تو ایک طرف رہا،وہ تو ووٹ ڈالنے کے لیے جانے سے بھی قاصرہوتاہے کہ ووٹ ڈالے یا بچوں کی دو وقت کی روٹی کا انتظام کرے۔ جب تک انتخابی نظام میں خاطر خواہ انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں، ووٹر اِس استحصالی نظام کے ہاتھوں مجبورہے کہ عوامی نمائندگی کے نام پر قوم وملک کا سرمایہ ہڑپ کرنے والوں کو منتخب ہوتا دیکھتا رہے اور کڑھتا اورروتا پیٹتارہے،کہ وہ اِس کے سواکرہی کیاسکتاہے!
ملک پر مسلط دوسرا مافیا غلامی کے دورکی بدترین یاددگاربیوروکریسی ہے۔بیورو کریسی کا ’’بابو گروپ‘‘ جو پہلے ڈی ایم جی ہوا کرتا تھا۔ اب اس نے اپنا نام پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس رکھ لیا ہے ۔نوکرشاہی کہلانے والایہ مافیا عوام کا خادم کیسے ہوسکتا ہے۔ بے اندازہ مراعات اوربھاری تنخواہوں کے باوجود دَولت کی حرص ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔اندازہ کیجیے کہ بیس، اکیس اور بائیس گریڈکے ڈیڑھ دولاکھ کے تنخواہ داربیوروکریٹ کے بچے کیسے امریکہ اوریورپ کے ان تعلیمی اداروں میں پرورش پاتے ہیں جہاں ایک سمسٹرکی فیس ہی50ہزاڈالرسے ایک لاکھ ڈالرزکے درمیان ہے۔نوکرشاہی کے یہ کارندے ہرسال چھٹیاں گزارنے کے لیے سوئٹزر لینڈ، ویانا اور جزائر غرب الہند جاتے ہیں۔پاکستان میں مہنگی ترین لگژری گاڑیوں میں گھومتے اورپوش علاقوں کے وسیع بنگلوں میں رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایسے شاہانہ خرچے بھاری کرپشن کے بغیر کسی طرح بھی ممکن نہیں ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ بیوروکریسی کی سیاست میں آمدہوئی ۔زرداری کے دور میں صوبائی بیورو کریسی بھی سیاست میں ملوث ہوئی۔ اب بیورو کریسی اور سیاست یک جان دو قالب ہیں۔ بدعنوانوں کے اس اتحاد نے سیاسی نظام کو جس بری طرح آلودہ کیاہے۔یہ گنداب جلد صاف ہونے والا نہیں ہے۔ قانون کی مکمل عمل داری میں بے رحمانہ،غیرجانبدارانہ اورکڑااِحتساب ہی اِس کا واحدحل ہے۔جس کے بعدکسی کا تذکرہ پانامہ اورپیراڈائزلیکس میں نہیں آئے گا۔پھر نہ کوئی عدالتی لاڈلاکہلائے گا اورنہ کوئی نااہل ہوگا اورنہ کوئی راؤ انور جیسا ایس ایس پی رینک کا افسرپچاسی ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور چار سو جھوٹے پولیس مقابلوں کے الزامات کا حامل ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.